ابھی خرید کر بعد میں ادائیگی کرنے والی اسکیمیں آسٹریلین خریداروں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں ،ایسی اسکیموں کے ذریعے خریداری کی کل مالیت ۲۰۱۸ ۔ ۲۰۱۹ میں 5.6 بلین ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ لیکن یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ایسی اسکیموں کے ذریعے بار بار خریداری کرنے والے افراد قرض کے جال میں پھنس سکتے ہیں اور ان کے مالی معاملات بے قابو ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
کسی کاغذی کاروائی کے بغیر خریداری پر بلا سود ہفتہ وار یا ماہانہ ادائیگی کے رحجان میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آسٹریلین سیکیورٹیز اینڈ انویسٹمنٹ کمیشن کے مطابق ، آسٹریلیا میں ۲۰۱۸۔۲۰۱۹ میں خریداروں نے ابھی خریدئے بعد میں ادائیگی کیجئے جیسی اسکیموں کے ذریعے 5.6 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کئے ۔مالی مشاورت کے ادارے فائیننشئیل کونسیلنگ آسٹریلیا کی سربراہ فیونا گتھری خیال میں ’بائے ناؤ ۔ پے لیٹر‘ جیسی اسکیموں کے متعلق واضع قوانین اور ضوابط کی فوری ضرورت ہے۔
اگرچہ سود سے پاک قسطیں خریداروں کے لئے ان خدمات کو کافی حد تک پرُ کشش بناتی ہیں مگر ادائیگی نہ ہونے پر ان سے بھاری سے فیس وصول کی جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں محفوظ کاروبار اور سرمایہ کاری کےادارے ایسک کی نومبر 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی اسکیموں سے خریداری کرنے والے اکیس فیصد افراد کو قسطوں کی ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث اصل رقم کے ساتھ تاخیری فیس بھی ادا کرنا پڑی۔ کینبرا میں قائم قومی قرض ہیلپ لائن کی مالی مشیر ڈیب شروٹ کہتی ہیں کہ مختلف اسکیموں میں بعد میں ادائیگی کرنے والوں کے لئے مختلف شرائط ہیں۔ فنانشل کونسلنگ آسٹریلیا کی فیونا گتری کا کہنا ہے کہ یہ اسکیمیں ایک ایسا جال ہیں جس میں آپ اپنی مجموعی مالی حیثیت پر غور کیے بغیر اپنی استعداد سے زیادہ اخراجات کرسکتے ہیں ۔ فائیننشئل کونسلر ڈیب شورٹ کا کہنا ہے کہ جو لوگ پہلے ہی اپنی کریڈٹ لیمٹ سے ذیادہ خریداری کر چکے ہوں گے وہ بعد میں خریداری اپنے لئے مکان یا کار کے لئے بینک کا قرض نہیں حاصل کرسکٰں گے۔
کرسٹی رابسن قومی قرض ہیلپ لائن کے ساتھ ایک مالی مشیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ صارفین کو ابھی خرید کر بعد میں ادائیگی کر نے کے اس طریقے میں
تحفظات حاصل نہیں ہیں ۔
اےسیک کی رپورٹ کے مطابق ہے کہ ایسی اسکیموں سے خریداری کرنے والے کچھ افراد اگلی قسطوں کی ادائیگیاں نہ کر سکنے کے باعث کھانے پینے اور کرایہ کی ادائیگی جیسی ضروریات میں کٹوتی کر رہے ہیں اور ایسے افراد جنہوں نے کچھ اور اضافی قرضے لےرکھے ہوں وہ اور بھی پریشان ہیں۔ محترمہ روبسن کا کہنا ہے کہ انہیں اکثر ایسے افراد سے واسطہ پڑتا ہے ۔ محترمہ روبسن کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز عام ہو رہے ہیں جہاں پہلے خریداری کر کے بعد میں ادائگی کرنے والی اسکیموں کا حصہ بننے والے روز مرہ کی ضروریات اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے بھی قابل نہیں ہیں۔
کرسٹی روبسن تجویز کرتی ہیں کہ اگر کسی کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہو یا اپنے قرض کا انتظام کرنے میں دشواری محسوس ہو تو مدد طلب کریں۔
آپ حکومت کی منی سمارٹ ویب سائٹ پر مزید معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
National debt helpline 1800 007 007