اہم نکات
- چٹھہ نے انتخابی دھاندلی کا اعتراف کیا ہے۔
- ان کے اس اعتراف نے فروری کے عام انتخابات کے نتائج کی قانونی حیثیت پر شبہ بڑھا دیا ہے۔
- عام انتخابات کے نتائج غیر منصفانہ ہونے کے دعووں پر ملک گیر احتجاج کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے۔
پاکستان میں ایک سینئر بیوروکریٹ نے ہفتے کے روز کہا کہ انہوں نے ملک کے انتخابات میں دھاندلی میں مدد کی تھی، ہیرا پھیری کے الزامات کی زد میں آنے والے انتخابات کے ایک ہفتے بعد بھی کوئی واضح فاتح نہیں ہے۔
لیاقت علی چٹھہ گیریژن سٹی راولپنڈی کے کمشنر ہیں، جہاں ملک کی طاقتور فوج کا ہیڈکوارٹر ہے -انہوں نے کہا کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کر دیں گے۔

Liaqat Ali Chatha said he had supervised the rigging of votes in Rawalpindi, while also implicating the head of the election commission and the country's top judge. Source: AAP / Sohail Shahzad/EPA
فوج کی حمایت یافتہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے اگلی حکومت بنانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور چند چھوٹی جماعتوں کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔
لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے راولپنڈی میں ووٹوں کی دھاندلی کی خود نگرانی کرتے تھے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، "ہم نے 13 قومی اسمبلی کی نشستوں پر 70,000 ووٹوں کے مارجن کو تبدیل کرتے ہوئے ہارنے والوں کو فاتح میں تبدیل کیا۔"
"ایسے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کے لیے، میں خود کو پولیس کے حوالے کر دوں گا،" انہوں نے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ملک کے چیف جسٹس کو بھی اس میں ملوث بتایا۔
الیکشن کمیشن نے چٹھہ کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا لیکن ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ "انکوائری کریں گے"۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے لیاقت علی چٹھہ کے اعلان کے بعد کہا کہ "پاکستان میں دھاندلی میں ریاستی بیوروکریسی کا ملوث ہونا بے نقاب ہونے لگا ہے"۔
مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے امیدواروں نے راولپنڈی کی زیادہ تر نشستوں پرجیت حاصل کی ہے۔
خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی نے ہفتہ کو مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر مظاہروں کی کال دی تھی۔

Supporters of the Grand Democratic Alliance protest against what they call vote-rigging in some constituencies in the parliamentary elections, on the outskirts of Hyderabad, Pakistan on Friday. Source: AAP / Pervez Masih/AP
لاہور کے مرکزی شہر میں، پولیس نے پارٹی کے سینئر رکن سلمان اکرم راجہ اور ایک درجن کے قریب حامیوں کو – پارٹی ہیڈ کوارٹر کے قریب حراست میں لے لیا – لیکن کہا گیا کہ ان سب کو دوپہر تک رہا کر دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے سینئر عہدیدار علی محمد خان نے احتجاج کے بعد کہا کہ چٹھہ کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی کو دھوکہ دیا گیا تھا۔
انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا، "ہمیں ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جانا چاہیے۔"
واچ ڈاگ نیٹ بلاکس کے مطابق، ہفتے کی رات تک، پاکستان بھر میں سوشل میڈیا نیٹ ورک X کو بند کر دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے مہینوں تک جاری رہنے والے کریک ڈاؤن کا مقابلہ کیا جس نے اس کی انتخابی مہم کو تہہ و بالا کر دیا تھا اور امیدواروں کو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے پر مجبور کیا تھا۔
لیکن وہ اپنے مخالفین کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہے، جس سے مسلم لیگ (ن) کی اگلی حکومت بنانے کی راہ ہموار ہو گی۔