بطور ایک منظور شدہ انجئینر سیف النجم اپنا ویزہ حاصل کرنے کے بعد میلبرن میں نئی زندگی کے آغاز کے لئے تیار تھے۔ وہ ملائشیا میں اپنے 19 سالہ قیام کو خیر آباد کہتے ہوئے اپنے بیگ تیار کر چکے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنا فرنیچربھی بیچ دیا تھا۔ وہ ویزہ سب کلاس 476 کے تحت آسٹریلیا میں انجنئیرنگ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مکمل تیار تھے اور سول انجنئیر کی نوکری حاصل کرنا چاہتے تھے ۔
لیکن عالمی وبا نے حالات یکسر تبدیل کر دئیے اور مارچ 2020 میں وفاقی حکومت کی جانب سے وبائی مرض سے بچاو کے لئے سرحدیں بند کر دیں اور 28 سالہ سیف النجم کا آسٹریلیا آ کر کام کرنے کا خواب تعطل کا شکار ہو گیا ۔
اگرچہ آسٹریلین سرحدیں کھنے کی تاریخ تبدیل کر دی گئی تھی لیکن جناب النجم کا ویزہ صرف مارچ 2021 تک کے لئے توسیع کیا گیا ۔ جناب النجم کا کہنا ہے کہ ویزہ دوسری مرتبہ آگے نہیں بڑھایا گیا اور اس بات نے مجھے جذباتی طور پر توڑ دیا ۔
"(مسترد کیا جانا ) بہت زیادہ مشکل تھا کیونکہ یہ وہ خواب تھا جس کے لئے میں کئی سال سے محنت کر رہا تھا اور اس کے بعد لگا کہ میری تمام محنت ضائع ہو گئی جب کہ اس صورتحال میں میری کوئی غلطی بھی نہیں تھی ۔ انہوں نے ایس بی ایس نیوز کو بتایا۔
اب جبکہ آسٹریلیا قومی روڈ میپ کے تحت دوبارہ کھلنے کی جانب گامزن ہے ، گذشتہ ہفتے ہنر مند تارکین وطن ، عارضی وہزہ ہولڈرزاور بین الاقوامی طلباء کو آسٹریلیا آنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔
محکمہ امیگریشن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ویزہ سب کلاس 485 کے تحت ایسےعارضی گریجویٹ ویزہ ہولڈرز کو متبادل ویزہ کی اجازت دے رہا ہے جن کے ابتدائی ویزہ کی معیاد کووڈ -19 سرحدی بندش کی وجہ سے ختم ہوگئ ہو۔
جناب النجم کا کہنا ہے کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ انہیں اور ان جیسے ہزاروں ویزہ ہولڈرز کوپیچھے چھوڑ دیا گیا ہے ۔
سال 2019 میں آسٹریلیا میں 25،350 انجنئیرنگ گریجویٹس ریکارڈ کئے گئے جن میں سے 75 فیصد انجئیرز بین الاقوامی طلباء تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک اس صنعت میں ماہرین کی کمی کو پورا کرنے لے لئے بڑے پیمانے پر غیر ملکی تارکین وطن پر انحصار کرتا ہے ۔
سیف النجم کا کہنا ہے کہ آپ نے مجھے پہلی مرتبہ( ویزہ میں )توسیع کیوں دی اور دووسری مرتبہ کیوں نہیں دی جبکہ سرحدیں بند تھیں اور میں آسٹریلیا نہیں آسکتا تھا ۔
یاد رہے کہ اس وقت آسٹریلیا ک انجنئیرنگ کی صنعت میں افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے اور صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے یہ بہت اہم ہے کہ جناب النجم جیسے تارکین وطن ملک میں اس خلاء کو پر کریں ۔
آسٹریلوی صنعتی گروپ انیزولکوکس کے سی ای او کاکہنا ہے کہ درحقیقت ایسے مزید صحیح ماہرین کے بغیر، جن کی ہمیں ضرورت ہے ، کاروبار مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔
آسٹریلیا کی آبادی میں سال 2030 تک 31 ملین کا اضافہ متوقع تھا لیکن عالمی وبا کے بعد اس تخمینے کو کم کر کے 3۔29 ملین کر دیا گیا ہے ۔
آسٹریلیا میں آبادی آبادی کی پیش گوئی کے مطابق یہ عالمی وبا سے قبل کی آبادی کی اوسط میں 5۔1 فیصد کی واضح کمی ہے جو سال 2024-25 تک دوبارہ واپس آتی نظرنہیں آرہی ، جب مزید تارکین وطن آسٹریلیا آئیں گے ۔
لیکن ساتھ ہی اس دوران آسٹریلیا جناب النجم جیسے ہنر مند تارکین وطن سے محروم بھی ہو رہا ہے ۔
امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے سابق سیکریٹری ابو رضوی کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ معیشتیں گذشتہ 50 سال یا اس سے زائد عرصے سے اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کےلئے آبادی میں اضافے پر انحصار کر رہئ ہیں ۔
ملک میں دوسری صنعتیں بھی ہنر مندوں کی کمی سے دوچار ہیں ۔ وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے حال ہی میں ٹرک اپرینٹس شپ کا اعلان کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ان شعبوں کی تربیت اور مہارت میں سرمایہ کاری کررہئ ہے جن کی مستقبل میں آسٹریلین باشندوں کو ملازمتیں حاصل کرتے ہوئے ضرورت ہوگی اور آنے والے سالوں میں ہماری معیشت کے لئے یہ اہم چیلنج ہونے ولا ہے ۔
اب تک جناب سیف النجم اور ان جیسے انجنئیرنگ گریجویٹس وفاقی حکومت سے جوابات کے حصول کےلئ لابنگ کرتے رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 ماہ بہت تکلیف دہ تھے ۔
"یہ ناقابل یقین ہے ۔۔۔۔ آپ جب کسی چیز کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنی تمام محنت اس پر لگادیتے ہیں ۔ پھر آپ کو اس بات کی وضاحت بھی نہیں ملتی کہ آپ آسٹریلیا میں داخل کیوں نہیں ہو سکتے ۔"

Travellers in personal protective equipment load luggage into a taxi outside the international terminal at Sydney Airport. Source: Reuters
ایس بی ایس نیوز نے اس بارے میں گفتگو کرنے کے لئے محکمہ داخلہ سے رابطہ کیا تھا ۔