اس شخص نے میرے باپ کو جسے میں مردہ سمجھ بیٹھی تھی وقت کے بے رحم چُنگل سے نکال کر میری دہلیز پر لا کھڑا کیا تھا اور اپنے باپ سے ملنے کے بعد میں اب اپنے اس محسن کے سامنے گُم سُم کھڑی تھی ۔ سکوت کا وہ لمحہ جب میں اور میرا محسن لفظوں کے بجائے صرف چہرے کے تاثرات اورڈبڈباتی آنکھوں سے تشکر اور احسان مندی کے جذبات کا تبادلہ کر رہے تھے۔۔۔ یہ منظرصرف مجھے ہی نہیں بلکہ لاکھوں کڑوڑوں اُن دیکھنے والوں کو بھی شدت جذبات سے مغلوب کر گیا تھا جو پی ٹی وی کے معروف ڈرامہ سیریل "وارث" کے اس جذباتی منظر میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔
یہ ہے معروف اداکارہ عظمیٰ گیلانی کے یادوں کے صحیفے کا ایک ورق جس کی ہر سطر پر لوَٹ پھِر کر لیجنڈری اداکارعابد علی کے ساتھ گزارے فنی سفر کا نقش ابھرتا ہے۔ ڈرامہ وارث عابد علی اور عظمیٰ گیلانی کے فنی سفر کا سنگ میل قرار پایا۔ ستؔر کی دہائی کے آخر میں ٹیلی کاسٹ ہونے والی اس کا میاب ترین ٹی وی سیریل کی کہانی معروف ادیب و شاعر امجد اسلام امجد نے لکھی تھی جبکہ ڈرامے کی ہدایات نصرت ٹھاکر نے دی تھیں۔
ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے عظمٰی گیلانی نے عابد علی کے ساتھ گزارے اس وقت کو یاد کیا جب اُن کا اور عابد علی کا کسی ایک ڈرامے میں ساتھ ہونا ہی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
پی ٹی وی میں اسپانسرز کی میٹینگ میں ڈراموں کے پرومزو دکھانے کا اہتمام ہو تا تھا تا کہ تعاون کرنے والے کمرشل ادارے اسے اسپانسر کر سکیں اور اس کے لئے ڈراموں کی جھلکیاں اور پروموز کو پُرکشش بنانے کی بڑی کوششیں کی جاتی تھیں۔ مگر جب اسپانسرز کو پتہ چلتا کہ ڈرامے میں عظمٰی گیلانی اور عابد علی ہیں تو پرومو چلائےبغیر ہی اسپانسزر مل جاتے تھے۔
پی ٹی وی کے سنہری دور کی یادیں
عابد علی کی پروڈکشن میں بننے والے ایک ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والے ایک اور واقعے کو یاد کرتے ہوئے عظمٰی گیلانی بتاتی ہیں کہ شوٹنگ کے دوران مجھے جو کپڑے اس سیِن میں پہننا تھے اس کے بجائےغلطی سے کوئی دوسرا لباس آگیا اور میں دیکھے بغیروہ پہن کر سیٹ پر آ بھی گئیں۔ انہیں دیکھ کر عابد علی نے کہا کہ یہ لباس اس سین کا نہیں ہے اور تب مجھے واپس ڈریسنگ روم جانا پڑا مگر میں نے سنا کہ میری پریشانی کے خیال سےعابد غلط کپڑے لانے والے کو ڈانٹ رہا تھا کیوںکہ وہ میرا ایسا دوست تھا جو میرا وکیل بھی تھا ۔وہ کہتی ہیں کہ صرف یہی نہیں بلکہ وہ مجھے کئی کئی بار مکالمے یاد کروانے میں بھی مدد کرتا تھا۔
عظمٰی گیلانی بتاتی ہیں کہ یہ ستّر اور اسّی کی دہائی کا زمانہ تھا جب عابد علی، میں اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر کی دوستی کا تکون تمام فنکار دوستوں میں معروف تھا۔ ہم تینوں نصرت ٹھاکر کے کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں، ڈرامے، آرٹ، فن، ثقافت، فلسفے اور نجانے کن کن موضوعات پر موشگافیاں کرتے اور ایسے میں اچانک کمرے کا دروازہ کھلتا اور اداکار سلیم ناصر(مرحوم) دروازے سے جھانک کرشرارت سے کہتا ایسا لگ رہا ہے تین درویش برگد کے پیڑ کے نیچےکسی الأو کے گرِد بیٹھے فلسفے کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں اورتب کمرے کا سنجیدہ ماحول جاندار قہقہوں سے گونج اٹھتا۔

Source: Supplied
عابد علی کے ریڈیو کے سفر میں بھی عظمٰی گیلانی کا ساتھ
عابد علی باشعور، پڑھا لکھا اور بے حد ذہین اداکاروں میں سے ایک تھا۔ اس نے ریڈیو پاکستان کویٔٹہ سے صوتی سفر شروع کیا اور اسلام آباد سے ہوتا ریڈیو پاکستان لاہورپہنچا جہاں اس کے اندر کے فنکار نے اپنے جوہر دکھانا شروع کئے۔ عابد علی کے ساتھ اپنے فنی سفر کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے عظمٰی گیلانی کہتی ہیں ہم دونوں نے ریڈیو پاکستان سے خطوں کے جوابات بھی دئے کیونکہ پروڈیوسر اخلاق احمد دہلوی تلفظ اور ادئیگی پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے تھے اور خطوں کے جواب میں اس کا خاص خیال رکھنا ہوتا تھا اس لئیے اس پروگرام کا بوجھ ہم دونوں کے کاندھے پر ڈالا گیا۔ اسی طرح ریڈیو ڈرامہ جو عابد اور میرے فنی سفر کا پہلا پڑأو تھا وہاں بھی ہم دونوں نے ساتھ کام کیا اور ہم دونوں کے ساتھ کئے گئے ڈراموں کو خوب پزیرائی ملی ۔ ڈراموں کی ریہرسیل کے دوران اگر کبھی مکالمے کی کوئی کمزور سطرسامنے آجاتی تو وہ اس کی نوک پلک سنوار کر اُس میں جان ڈال دیتا ۔
ریڈیو پر ہم دونوں نہ صرف داد سمیٹتے بلکہ آوازوں کے اتار چڑھاؤ اور مکالموں کی ادائیگی پر ایک دوسرے کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی تصیح بھی کرتے کیونکہ ہمارے درمیان دوستی کے ساتھ ایک دوسرے کی عزت و تکریم کا مضبوط رشتہ بھی تھا۔
عابد علی اور عظمٰی گیلانی نے امجد اسلام امجد کے لکھے ڈرامے وارث کے علاوہ لاتعداد ڈراموں میں ساتھ کام کیا۔ عابد علی کے ساتھ یادگار ڈراموں کی فہرست میں وہ بانو قدسیہ کے تحریر کردہ ڈرامے ’دھوپ جلی‘ اور کنور آفتاب احمد کی ہدایتکاری میں بننے والے ڈرامے ’میں پاگل ہوں‘ کو بطورِ خاص یاد کرتی ہیں۔ ان دونوں ڈراموں میں عابد علی نے ان کے ساتھ مرکزی کردار ادا کئے تھے ۔ ’میں پاگل ہوں‘ کی شوٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے وہ ایک دلچسپ واقعےکو یاد کرتی ہیں۔ ’ایک حقیقت ایک فسانہ‘ کا ڈرامہ ’میں پاگل ہوں‘ بے حد سنجیدہ موضوع کا ڈرامہ تھا جس میں عابد علی نے ایک ایسے شوہر کا کردار ادا کیا تھا جوکسی اور پر دِل آجانے کے بعد اپنی بیوی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اسے نشے کا عادی بنا دیتا ہے۔ اس ڈرامے میں عظمٰی گیلانی نے عابد علی کی بیوی کا کردار ادا کیا تھا اور ڈرامے میں کمرے میں ان کی شادی کی تصویر لگا نے کے لئے ان دونوں کو باقاعدہ شادی کے کپڑوں کے ساتھ تیار ہوکر تصویر بنوانا پڑی جو کسی طرح اخباروں میں چھپ گئی اوربارہا تردید کے باوجود کافی عرصے تک لوگ اس وہم میں رہے کہ عابد علی اور عظمٰی گیلانی حقیقی زندگی میں میاں بیوی ہیں۔
Image
عابد علی ۔ فنکاری کا مکمل پیکیج
عابد علی فنکاری کا ایک ایسا مکمل پیکیج تھا جس نے صداکاری اور اداکاری دونوں میں اپنا لوہا منوایا اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ، فلم اور اسٹیج پربھی اپنا سکہ جمایا۔ اس نے کمرشیل ٹی وی کے دور میں بھی کامیاب پروڈکشنز کے ذریعے اپنی الگ پہچان بنائی۔ عابد علی کوئیٹہ سے اسلام آباد اور پھر لاہور آیا اور بعد میں کراچی منتقل ہو گیا مگر اس میں بلوچی خوشبو رچی بسی رہی ۔اس کے پروڈیوس کئے کئی کامیاب ڈراموں کی طرح مقبول ڈرامہ "دشت" کا لینڈ اسکیپ بھی بلوچستان تھا۔ شایٔد بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ عابد علی پینٹنگ بھی بہت اچھی کرتا تھا اور اس کی مصوری کے نمونے اس کے گھر میں بھی آویزاں تھے۔جب وہ مکالمے بولتا تھا تو اس کی آنکھیں بھی بولتی تھیں۔ اس میں ایک قدرتی اداکار کے تمام اجزأے ترکیبی یا انگریڈینٹ تھے۔ جس زمانے میں ریاض منصوری ’ٹی وی ٹائمز‘ کے نام سے میگزین نکالتے تھے اس وقت عابد علی کی تصویر ہر بار پرسنلیٹی آف دِی منَتھ قرار پاتی۔
وہ اپنے ذاتی دُکھ اپنے پاس رکھتا تھا
اس کی نجی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے اور اس پر تنقید اور طنز کے تیربھی برسائے گئے مگر عابد علی نے کبھی کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دیا کبھی کسی کی برائی نہیں کی۔ اپنی بات اپنی ذات تک رکھی۔ عظمٰی گیلانی کہتی ہیں کہ شہرت کے بام عروج کے زمانے میں خوش و خرم رہنے والا ہنس مکُھ عابد علی کو مری میں آخری ڈرامے ’دستارِ انا‘ کی شوٹنگ کے درمیان میں نے کچھ دُکھی سا پایا جیسے وہ اندر سے بجھ سا گیا ہو مگر پھر بھی اس نے اپنے کسی دُکھ کا اظہار نہیں کیا۔
ہم نے ماضی کو یاد کیا، اچھے بُرے وقت کے ساتھیوں کو پکارا، ریڈیو اور ٹی وی کے ساتھیوں کی شوخ و سنجیدہ نکتہ آفرینیوں کو دہرایا اور خود کو گزرے دنون کی یادوں سے بہلایا۔ آج عابد علی ہم میں نہیں رہا مگر اس کا کام اسے جاوداں رکھے گا۔ عظمٰی گیلانی نے گلو گیر آواز میں بتایا کہ عابد علی کے ساتھ ان کا فنی سفر ۱۹۷۲ سے ۲۰۱۸ تک کے طویل عرصے پر محیط تھا ۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار دنوں کی بات نہیں۔ سننے والوں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنأوں۔

Source: Supplied
عظمٰی گیلانی کی بات چیت کا پوڈ کاسٹ سننے کے لئے نیچے کلک کیجئے

Source: Supplied
شئیر
