اہم نکات
- گرجا گھروں اور گھروں پر ہجوم کے حملوں کے بعد حکام نے 129 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
- یہ تشدد اس الزام سے شروع ہوا تھا کہ دو مسیحی مردوں کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی کی گئی ہے۔
- حکومت پاکستان نے متاثرین کی فوری بحالی اور معاوضے کا وعدہ کیا ہے۔
پاکستان میں ایک ہجوم نے قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بعد گرجا گھروں اور اقلیتی عیسائیوں کے گھروں پر حملہ کیا جس کے بعد پولیس نے 129 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
فیصل آباد ضلع کے جڑانوالہ شہر میں رہنے والے مسیحی محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں بدھ کے روز ہجوم نے حملہ کیا اور مسیحیوں پر ملک کے سب سے تباہ کن حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
سرکاری حکام نے جمعرات کو کہا کہ تباہ شدہ تمام گرجا گھروں اور گھروں کو ایک ہفتے کے اندر بحال کر دیا جائے گا اور جن لوگوں کو نقصان ہوا ہے ان کی تلافی کی جائے گی۔
مسلم علما کے وفود حالات کو پرسکون کرنے میں مدد کے لیے جڑانوالہ پہنچے، جب کہ فوج اور پولیس علاقے میں گشت کر رہی ہے۔ مقامی حکام نے مزید تشدد کو روکنے کے لیے اسکولوں اور دفاتر کو ایک ہفتے کے لیے بند کر دیا ہے اور ریلیوں پر پابندی لگا دی ہے۔
اس تشدد کی ملک بھر میں مذمت ہوئی، نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ فسادیوں کی گرفتاری کو یقینی بنائے۔
جمعرات کو علاقائی پولیس کے سربراہ رضوان خان نے کہا کہ 129 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور صورتحال قابو میں ہے۔

Members of Christian groups and others demonstrate in Karachi, Pakistan to condemn the attacks in Jaranwala. Source: AAP / Fareed Khan
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس شخص کو حراست میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو روپوش ہو گیا تھا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس نےقرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔
ملک کے توہین رسالت کے قوانین کے تحت، جو بھی شخص اسلام یا اسلامی مذہبی شخصیات کی توہین کا مرتکب پایا جائے اسے موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ حکام نے ابھی تک توہین مذہب کے لیے موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا ہے، لیکن اکثر صرف ایک الزام فسادات کا سبب بن سکتا ہے اور ہجوم کو تشدد، لنچنگ اور قتل پر اکساتا ہے۔