ایک عینی شاہد کے مطابق جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تقریباً 30 مرد جو پاکستانی ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں، اس وقت بیگل بے میں پولیس افسران کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ بیگل بے بروم سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ گروپ حال ہی میں ایک کمیونٹی اسٹور پر پہنچا تھا اور نقدی کا استعمال کرتے ہوئے یہاں سے پانی خریدا تھا۔
بیگل بے کے ایک رہائشی نے ایس بی ایس کو بتایا ہے کہ ان مردوں کو پہلی بار بیگل بے ٹاؤن شپ سے تقریباً 30 کلومیٹر دور مڈل لیگون کے قریب مقامی لوگوں نے دیکھا تھا۔ عینی شاہدین نے قریبی علاقے میں کوئی کشتی نہیں دیکھی۔
صورتحال کے بارے میں مزید معلومات اکٹھا کی جارہی ہیں اور بارڈر فورس اور وفاقی حکومت دونوں سے تبصرے کے لیے درخواست کی گئی ہے۔
مبینہ کشتی کی آمد کے بعد وزیر اعظم سے حالیہ پریس کانفرنس کے دوران سوالات پوچھے گئے ہیں۔ صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ وہ مسلسل سفر میں ہیں جس کی وجہ سے اس معاملے پر مکمل طور پر بریفنگ نہیں دی گئی تھی لیکن انہوں نے ایسے آنے والوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کی واضح پالیسیوں پر زور دیا۔
اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹن نے ان رپورٹوں کو "پریشان کن" قرار دیا۔
انہوں نے ایڈیلیڈ میں نامہ نگاروں کو بتایا ، "واضح طور پر حکومت کی جو انتظامات موجود ہیں وہ کافی نہیں ہیں۔"
"وزیراعظم کا فون گاڑی میں کام کرتا ہے، انہیں فون اٹھانا چاہیے تھا اور اپنے وزیر کو فون کرکے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔"
"وزیر [کلیئر] او نیل کو آج کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ آسٹریلین عوام کو یہ وضاحت فراہم کی جا سکے کہ کیا ہو رہا ہے اور اس حکومت نے ہماری سرحدوں کا کنٹرول کیسے کھو دیا ہے۔"
یہ واقعہ مئی 2022 میں البانیزی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آسٹریلیا پہنچنے کے لیے لوگوں کی اسمگلنگ کا 11 واں واقعہ ہے۔
گزشتہ نومبر میں، اسی طرح کے ایک واقعے میں 12 پاکستانی پناہ گزینوں کو دیکھا گیا جو مغربی آسٹریلیا کی ساحلی پٹی کے ایک دور دراز حصے پر کمبرلے کے علاقے میں پہنچے تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انڈونیشیا سے کشتی کے ذریعے سفر کر کے آئے تھے۔ بعد ازاں انہیں آسٹریلین بارڈر فورس کے اہلکاروں نے ناورو منتقل کر دیا تھا۔