’ہیلو، میرا نام پیپر ہے۔ میں ایک انسانی روبوٹ ہوں۔ میری عمر چار سال ہے۔
میں آپ کو اشیاء اور دیگر خدمات کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرسکتی ہوں۔‘
یہ باتیں کہیں چار فٹ کی پیپرنے جسے ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی نے آئیڈیاز ۲۰۱۸ میں متعارف کروایا۔
پیپر دنیا میں انسانی جذبات کی شناخت کرنے والی پہلی روبوٹ ہے جس پر یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹنگ، انجینئیرنگ اور میتھس میں ریسرچ کی جارہی ہے۔ ریسرچ کا مقصد روبوٹ اور انسانوں کے درمیان روابط کو بہتر بنانا اور کاروبارمیں روبوٹ کا موثر استعمال ہے۔
یونیورسٹی کے سینیئرلیکچرار اور روبوٹ پراجیکٹ کے مرکزی ریسرچر، ڈاکٹر عمر مبین کا کہنا ہے کہ ’سماجی روبوٹ‘ کاروبار اور انسانوں دونوں کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے۔
’روبوٹس کو دیکھ کر عمومآ یہ خیال آتا ہے کہ یہ گاڑیوں کی پیداوار یا کسی فیکٹری میں وسیع پیمانے پر اشیاء
کی پیداوار کرسکتے ہیں، روبوٹ کا ہاتھ کے طور پر یا مشین کا حصہ بن کر۔
لیکن’سماجی روبوٹس‘ تھوڑے مختلف ہوتے ہیں، جیسا کہ پیپر، جو لوگوں سے بات کرسکتی ہے، اور انسانی طرز پر تبادلہ خیال کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ چل سکتی ہے اور مختلف اشارے کرسکتی ہے۔
چونکہ روبوٹ انسان سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے،اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ ایک ڈسپلے اسکرین کے مقابلے
میں روبوٹ سے بہترتعامل کرے۔‘
پیپرانسانی تاثرات کو دیکھ کر اس کی عمر اور جذبات کو جانچنے کی صالحیت بھی رکھتی ہے۔

ڈاکٹر عمر مبین، پیپر، اور ریسرچرمنیب احمد Source: SBS
مختلف ممالک میں سماجی روبوٹس کا استعمال شروع ہوچکا ہے لیکن آسٹریلیا ان کے استعمال میں کافی پیچھے ہے۔
ڈاکٹر مبین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں کم ہی لوگ ان روبوٹس کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اب ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی آرہی ہے۔
’ آسٹریلیا روبوٹ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے جس میں اب تک سماجی روبوٹس پر زیادہ ۔توجہ نہیں دی گئ
مشرقی ممالک جن میں جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں ان روبوٹس کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن اب تبدیلی آرہی ہے۔ ہر شخص کے پاس اسمارٹ فون ہے اور وہ مختلف ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کررہا ہے۔
ہم پیپر کے ذریعے آگاہی پیدا کر رہے ہیں‘۔
پیپر کے علاوہ ایک اور سماجی روبوٹ جس کا نام ’ناؤ‘ ہے، تعلیمی سرگرمی کیلئے ٹیسٹ کیا گیا۔

سماجی روبوٹ ۔ ناؤ Source: SBS
ریسرچر منیب احمد نے ناؤ اور اسکول کے طلبا کے ساتھ باہمی تعلقات پر ریسرچ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ناؤ کو
ایک تعلیمی ساتھی کے طور پر استعمال کیا گیا، جو بچوں میں بہت مقبول ہوا۔
’ریسرچ مقصد یہ تھا کہ بچوں اور روبوٹ کی نا صرف ملاقات کرائی جائے بلکہ ایک طویل مدتی تعلق بھی قائم کیا جائے۔
عموماً بچے روبوٹ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں لیکن ایک یا دو دفعہ کے بعد وہ بور ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر میں نے طلبا کے کھیلوں کے اسکور ، امتحانات کے نتائج، ان کی روبوٹ سے ملاقاتوں کو پروگرامنگ میں شامل کردیا جس کے بعد روبوٹ اور طالبا کی بات چیت اور تعلقات ایک طویل عرصے تک بنے رہے۔‘
ڈاکٹر مبین کا کہنا ہے کہ سماجی روبوٹس کا سب سے بڑا فائدہ ان جگہوں پر ہے جہاں اطلاعات یا ڈیٹا کی فوری رسائی کی ضرورت ہوتی ہے یا امدادی کام کئے جاتے ہیں ـ
’ائیرپورٹ، شاپنگ سینٹر، بینک، مارکیٹ، اشیاء خوردونوش کی دکان یا کانسیئرج، سماجی روبوٹس کے استعمال کی بہترین جگہیں ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم اور ضعیف افراد کی دیکھ بھال میں بھی یہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔‘
ریسرچ ٹیم اب فیلڈ ٹرائیل کے لئے انڈسٹری پارٹنرز کی تلاش میں ہے۔
ٹیم سے رابطہ کرنے کیلئے، پیپر کو ای میل کیجئے
pepper@westernsydney.edu.au
:مزید معلومات اور ویڈیوز دیکھنے کے لٗیے
www.facebook.com/sbsurdu
پر جاٗیے۔
