آسٹریلیا کو کن پانچ انسانی حقوق کے مسائل کے سبب اگلے سال عالمی جانچ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟

قطر میں ہونے والا فیفا ورلڈ کپ اپنے تمام تر تنارعات کے ساتھ اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب آسٹریلیا اگلے سال خواتین کے ورلڈ کپ 2023 کی میزابی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

Then-Australian Prime Minister Malcom Turnbull poses for a photo with dignitaries and players during a Women's FIFA World Cup 2023 bid event at Parliament House in 2017.

Then-Australian Prime Minister Malcom Turnbull poses for a photo with dignitaries and players during a Women's FIFA World Cup 2023 bid event at Parliament House in 2017. Credit: Mark Nolan/Getty Images

قطر مشرقِ وسطیٰ کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ قطر کو مختلف وجوہات جن میں تارکین وطن کارکنان، خواتین، اور ہم جنس پرست افراد کیساتھ قابل اعتراض سلوک نے عالمی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

اب اگلےسال جب آسٹریلیا اور نیوزیلینڈ خواتین کے فیفا ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں تو انسانی حقوق کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ آسٹریلیا بھی جانچ پڑتال کی زد میں آئے گا۔

ہیومن رائٹس واچ کی آسٹریلین ریسرچر سوفی میکنیل کا کہنا ہے کہ اگلے سال جب بین الاقوامی صحافی آسٹریلیا کا رخ کرینگے تو آسٹریلیا عالمی اسپاٹ لائٹ میں ہوگا اور وہ ہمارے بہت سے اہم انسانی حقوق کے مسائل پر ہم سے سوال کرینگے۔

UNSW کے آسٹریلین ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ کی ڈاریکٹر جسٹن نولن بھی اس بات کی تعید کرتے ہوئےکہتی ہیں کہ کھیل اور انسانی حقوق کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور اس قسم کے کھیلوں کے ایونٹس ان مسائل سے متعلق آگاہی پہنچانے اور حالات میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

“آسٹریلیا بھی اسی قسم کی وجوہات کی بنا پر عالمی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔”

درج ذیل کچھ ایسے معملات ہیں جن پر آسٹریلیا کی جانچ پڑتال ہوسکتی ہے۔
پروفیسر نولان کا کہنا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ قطر کی طرح آسٹریلیا بھی تارکین وطن مزوروں کے استحصال کے معاملے میں عالمی توجہ کا مرکز بنے گا۔ اگرچہ لیبر ریفارمز کی گئی ہیں مگر اگر سوالات اٹھائے گئے تو وہ بہت سگین نوعیت کے ہونگے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال مارچ میں آسٹریلیا کے فارمز پر کام کرنے والے کچھ تارکین وطن مزدوروں کو 2 ڈالر فی گھنٹہ سے بھی کم تنخواہ دی گئی تھی۔

وزیر اعظم اینتھونی البنیز جو اس وقت حزب اختلاف میں تھے نے کہا تھا کہ یہ آسٹریلین طریقہ نہیں ہے۔ ہمیں بہت کچھ، بہت بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔
FIFA Women's World Cup 2023 Final Draw
Australian Minister for Sport Anika Wells and FIFA President Gianni Infantino at the FIFA Women's World Cup draw in October. Source: Getty / Harold Cunningham/FIFA
پروفیسر نولان نے کہا "آسٹریلیا کی تاریخ رہی ہے کہ ہم تارکین وطن مزدوروں کو باغبانی اور دیگر کاموں کیلیے باہر سے لاتے رہے ہیں۔ اور پچھلے چند سالوں میں یہ ظاہر بھی ہوگیا ہے کہ ہمارے ملک میں انکا استحصال کیا جارہا ہے۔ تو اجرت کی چوری کے سوالات ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سوالات بھی اٹھائے جائنگے کہ آیا ہمارا نظام جدید طرز کی غلامی کو فروغ دیتا ہے یا نہیں۔ "

نومبر میں نیو کیسل یونیورسٹی اور آسٹریلین کیتھولک ریلیجیئس اگینسٹ ٹریفکنگ ان ہیومنز کی طرف سے شائع ہونے والی تحقیق میں پایا گیا کہ تارکین وطن کارکنوں کا استحصال آسٹریلیا میں ایک بڑا مسئلہ تھا۔

لیڈ منصف جسٹن ایلس نے کہا کہ ان افراد کو خاص طور پر محفوظ روزگار تک رسائی، غیر تسلیم شدہ قابلیت، کم انگریزی خواندگی، سستی معیاری رہائش تک رسائی اور کارکنوں کے حقوق اور حالات کے بارے میں اندرون ملک معلومات تک رسائی کی کمی جیسے عوامل کی وجہ سے کمزور گردانا جاتا ہے۔

فل الوقت حکومت 2018 کے مارڈرن سلیوری ایکٹ کی جانچ کر رہی ہے جو مارچ 2023 میں مکمل ہوجائے گی۔

2. ایب اوریجنل افراد کے ساتھ سلوک

آسٹریلیا ان چند ممالک میں سے ہے جس نے زمین کے روایتی مالکان کے ساتھ کسی معائدے پر دستخط نہیں کیے۔

ایب اوریجنل رائڑس کی وکیل اور ماہر تعلیم لاریسہ بہرانڈنٹ آو نے ہیومن رائٹس کمیشن کے 2022 کے ہیومن رائٹس ڈے پر اپنے خطاب میں آسٹریلیا میں فرسٹ نیشنز کیلیے انصاف اور بچوں کی حفاظت کے قوانین اور نظام پر روشنی ڈالی۔

Eualeyai/Kamillaroi خاتون نے کہا کہ فرسٹ نیشنز کیلیے نظام تباہ ہوچکا ہے۔
فرسٹ نیشنز کیلیے نظام تباہ ہوچکا ہے۔
لاریسا بیہرنڈٹ، انڈیجنس حقوق کی وکیل
آسٹریلوی حکومت کی تازہ ترین کلوزنگ دی گیپ رپورٹ نے ظاہر کیا ہے کہ مقامی اور غیر مقامی آسٹریلین باشندوں کے درمیان عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے اور زیادہ سے زیادہ انڈیجنس بچے بے گھر ہورہے ہیں اور جیلوں میں بالغ انڈیجنس افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ایب اوریجینل اور ٹورس اسٹریٹ آئی لینڈر افراد آسٹریلین آبادی کا صرف 3 فیصد ہیں لیکن بالغ جیلوں میں ہر چار میں سے ایک شخص ان میں سے ہے۔ 1991 میں اس معاملے پر ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس کے بعد سے اب تک زیر حراست 527 اموات ہوچکی ہیں۔

پروفیسر بہرینڈٹ نے کہا، "میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اگر رائل کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جاتا تو زیر حراست ہر موت کو روکا جا سکتا تھا۔"

آسٹریلیا میں مجرمانہ ذمہ داری کی عمر پر بھی بحث جاری ہے۔ یہ عمر کی ذمہ داری غیر متناسب طور پر انڈیجنس بچوں کو متاثر کرتی ہے - اس وقت ریاست اور علاقہ کے اٹارنی جنرل کے وکلاء لابنگ کررہے ہیں تا کہ اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تجویز کردہ عمر کم از کم 14 تک بڑھایا جائے۔
دسمبر میں، ناردرن ٹیریٹری آسٹریلیا میں پہلی اسٹیٹ بنی جس نے مجرمانہ ذمہ داری کی کم از کم عمر 10 سال سے بڑھا کر 12 سال کر دی تھی۔

پروفیسر بہرینڈٹ نے کہا کہ "پہلی اقوام کے لوگ دنیا کی قدیم ترین زندہ ثقافت ہیں اور ہمارے پاس اس ملک میں 1788 تک کوئی جیل نہیں تھی۔ کوئی یتیم نہیں تھا، کوئی بے گھر نہیں تھا۔ پتہ چلا کہ یہ 80,000 سال سے زیادہ عرصے تک ایک پائیدار نظام تھا۔"

محترمہ میک نیل کا کہنا ہے کہ "آسٹریلیا میں فرسٹ نیشنز کے لوگوں کے خلاف تاریخی ناانصافیوں کو دور کرنے میں ناکامی اور مسلسل ناانصافی جو آج بھی برقرار ہے، آسٹریلیا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ایک بہت بڑا داغ ہے۔" ۔

نو سال بعد اقتدار میں آنے والی آسٹریلیا کی لیبر حکومت وآئس فار فرسٹ نیشنز کے نام سے ایک پراجیکٹ بنا رہی ہے جس میں دی گئی تجاویز پر 2023 میں ریفرینڈم کے ذریعے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی جائے گی۔

3. پناہ گزینوں کی حراست

جنوری میں ٹینس سپر اسٹار نوواک جوکووچ کو کووڈ 19 سے بچاو کی ویکسن نہ لگوانے پر آسٹریلیا سے ملک بدر کر دیا گیا تھا جس نے آسٹریلیا کی متنازعہ اسائلم پالیسیوں کو دنیا کی نگاہ کا مرکز بنایا۔

جوکووچ کو میلبورن کے پارک ہوٹل میں پناہ کے متلاشیوں کے ساتھ امیگریشن حراست میں رکھا گیا تھا۔ پچھلے مہینے، ایس بی ایس نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ اسی سنٹر میں پناہ گزینوں نے اپنے کھانے میں سے کیڑے نکلنے کی شکایت کی تھی، یہ دعوے بی بی سی سمیت دیگر بین الاقوامی میڈیا نے بھی جوکووچ کی حراست کے بعد اٹھائے تھے۔
Three men standing at a window with signs including one saying 'Where's the humanity?'
Three asylum seekers gesture to protesters from the Melbourne hotel room where they were detained in June 2020. Source: Getty, AFP / William West
جب کہ اب پارک ہوٹل کے قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف تو آسٹریلیا کا آف شور پروسیسنگ کا نظام اور پناہ کے متلاشیوں کی آن شور حراست جاری ہے، دوسری جانب لیبر حکومت نے 2013 میں متعارف کرائی گئی آپریشن سوورن بارڈرز کی پالیسی کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
پروفیسر نولان نے کہا کہ "یہ ایک اہم سوال ہے کہ اس قسم کی پالیسی کے ذریعے ہم کیا حاصل کر رہے ہیں۔ ہم یہ کیوں کر رہے ہیں، اس کا مقصد کیا ہے، کیا یہ کارگر ہے، اور کیا ہمیں دوسرے طریقوں جیسے کمیونٹی کی حراست یا کمیونٹی کے جائزوں کی طرف دیکھنا چاہیے۔"

حکومت نے اپنے اکتوبر کے بجٹ میں آف شور پروسیسنگ مراکز کی دیکھ بھال کے لیے اضافی $194 ملین دیے اور 2022-23 میں آف شور پروسیسنگ پر $632 ملین خرچ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

4. موسمیاتی تبدیلی پر عمل نہ کرنا

ستمبر میں ایک تاریخی فیصلے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پایا کہ آسٹریلیا ٹورس آئلینڈرز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف مناسب طور پر تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے ان کی نجی زندگی، خاندان اوراندرونی معاملات میں مداخلت کر کے انھیں اپنی ثقافت سے لطف اندوز ہونے کے بنیادی انسانی حق سے بھی محروم رکھا ہے۔

پروفیسر نولان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور اسکے انسانوں پر اثرات "انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ ہونگے جو ہماری اگلی نسلوں پر مرتب ہونگےاور اس میں آسٹریلیا اس وقت ایک "اہم موڑ" پر ہے۔
آسٹریلیا دنیا کے فوسل فیول کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور اسے جنگلات کی کٹائی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے لیے بدترین ممالک میں بھی شمار کیا گیا ہے۔

"ہمیں فعال طور پر اپنے اعمال، برآمدات، اور لوگوں کی زندگی اور صحت کے حقوق پر پڑنے والے اثرات کے درمیان رابطہ قائم کرنا چاہیے اور اخراج کو کم کرنے کے معاملے میں بہت زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔"

لیبر کا آب و ہوا کا بل ستمبر میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا جس میں طے کیے گئے نئے اہداف کے مطابق آسٹریلیا 2030 تک اخراج میں 43 فیصد کمی لائے گا اور 2050 تک یہ اخراج بالکل ختم ہوجئے گا۔

5. مظاہرین کے خلاف کریک ڈاوؑن

دسمبر میں، موسمیاتی تبدیلی کے کارکن وائلٹ کوکو کو NSW کی ایک عدالت نے سڈنی ہاربر برج پر ٹریفک بلاک کرکے احتجاج کرنے کے جرم میں 15 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

مسز میک نیل نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ "پرامن آب و ہوا کے مظاہرین" کو دی گئی سزا پر شدید پریشان ہے۔

"ہم سمجھتے ہیں کہ آسٹریلیا میں موسمیاتی مظاہرین اور ماحولیاتی کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے غیر متناسب سزاؤں کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور یہ قابل قبول نہیں ہے۔"
Two trophies - the men's and the women's - on display together.
Australia and New Zealand will co-host the FIFA Women's World Cup in 2023. Source: Getty / Shaun Botterill/FIFA
پروفیسر نولان نے کہا کہ آسٹریلیا میں قانونی طور پر احتجاج کرنے کے لیے "حقوق کی تنگی اور پابندی" دیکھی جا رہی ہے۔

"عدالتوں کی رائے یہ تھی کہ کوکو کا احتجاج ایک خلل ڈالنے والا، تکلیف دہ عمل تھا۔ ٹھیک ہے یہ واقعی احتجاج ہے، اور ہم آسٹریلیا میں قانون کے مطابق احتجاج کی اجازت دیتے ہیں، لیکن اس قسم کی سزائیں احتجاج کی آزادی میں رکاوٹ ہیں۔"

مغربی جمہوریتوں میں آسٹریلیا واحد ریاست ہے جس میں انسانی حقوق کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں ہے ، جیسے انسانی حقوق کا ایکٹ، چارٹر یا بل آف رائٹس۔ ریاست اور علاقہ کی سطح پر، وکٹوریہ، کوئنز لینڈ اور ACT واحد اسٹیٹس ہیں جن کے قوانین خاص طور پر انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔

پروفیسر نولان نے کہا " یوں تو آسٹریلیا نے انسانی حقوق کے بہت سے بڑے بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کی ہے، فیڈرل ہیومن رائٹس ایکٹ "ماضی اور علامتی" اور "حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کرے گا"۔

میک نیل نے کہا کہ انسانی حقوق کے ایکٹ "صرف فرضی نہیں ہیں، یہ اس بات کو ٹھوس تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔"

ایک مثبت میراث کا موقع

خواتین کی فٹ بال ٹیم میں کئی ہم جنس پرست کھلاڑی موجود ہیں مگر مردوں کی ٹیم میں اسکے برعکس کوئی ایسا کھلاڑی موجود نہیں ہے - اسکے علاوہ قطر کے برعکس آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دونوں کے قوانین ہم جنس تعلقات اور شادی کی حمایت کرتے ہیں -اسلیے 2023 کا ٹورنامنٹ LGBTIQ+ کے حقوق اور دیگر معاملات کو احسن طریقے سے حل کرنے کا موقع ہے۔

پچھلے مہینے بات کرتے ہوئے، آسٹریلیا کی وزیر برائے کھیل انیکا ویلز نے کہا: "قطر کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی نے انسانی حقوق میں بامعنی اصلاحات کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کیے ہیں جو ہمیں امید ہے کہ ٹورنامنٹ سے آگے بھی جاری رہے گا۔"
New Zealand Football Media Opportunity After The 2023 FIFA Women's World Cup Host Announcement
Tameka Yallop of Australia and Paige Satchell of New Zealand after the announcement of the 2023 FIFA Women's World Cup hosts in 2020. Source: Getty / Phil Walter
اکتوبر میں ایس بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے، فیفا کی اناگرل چیف ویمنز فٹ بال آفیسر سرائے بریمن، جو کہ نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والی ساموائی بین الاقوامی کھلاڑی ہیں، نے کہا کہ فٹ بال زیادہ متنوع اور جامع ہوتا جا رہا ہے اور اس کی میزبانی اچھائی کے لیے ایک طاقت بننے کا موقع فراہم کرتی ہے -

انھوں نے کہا کہ نمائندگی کے لیے "فٹ بال کا چہرہ بدل رہا ہے۔ یہ روایتی طور پر مردوں کی اکثریت والا کھیل ہے، لیکن میرے جیسے زیادہ سے زیادہ لوگ ہیں جو فیفا کنفیڈریشنز اور ممبر ایسوسی ایشنز میں اعلیٰ سطح پر شامل ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ فٹ بال کا کھیل بدل رہا ہے۔ اور اس کھیل کی پیشرفت دیکھنا ناقابل یقین ہے۔"

انھوں نے مزید کہا کہ "یہ وہ بڑا لمحہ ہے جو ہمارے پاس ہر چار سال میں ایک بار آتا ہے. اور یہ بہترین موقع ہے جب ہم خواتین کے کھیل اور اس سے متعلق اقدار کواجاگر کرسکیں۔"

کامن گول اور فٹ بال یونائیٹڈ کی طرف سے شروع کردہ کمیونٹی پروگراموں کی ایک سیریز فیسٹیول 23، آسٹریلیا میں بھی خواتین کے ورلڈ کپ کے دوران منعقد کی جائے گی۔

فٹ بال یونائیٹڈ کے بانی این بنڈے بیروسٹے نے گزشتہ ماہ ایس بی ایس نیوز کو بتایا، "ہم اس فیسٹیول کو فٹ بال کے ذریعے سماجی میراث میں بہتری کی کنجی سمجھ رہے ہیں جس سے مثبت سماجی تبدیلی، موسمیاتی تبدیلی، اور شمولیت کے بارے میں بات کرنے سے معاشرتی بہتری آئے گی"۔

A person in a bird costume and four dancers
The FIFA Women's World Cup mascot Tazuni and dancers perform during a ceremony in Auckland in October. Source: Getty, AFP / William West
آسٹریلین حکومت کے ترجمان نے کہا: "آسٹریلیا ایک آزاد اور جامع معاشرہ ہے جو انسانی حقوق کی قدر کرتا ہے۔ لیکن ہم جانچ سے بالاتر نہیں ہیں"۔

حکومت "آسٹریلیا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہے جس میں مقامی حقوق اور نمائندگی کو بڑھانا، جدید غلامی کے خلاف اقدامات، موسمیاتی تبدیلیوں پر کارروائی، اور صنفی مساوات میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا شامل ہے"۔

حکومت جلد ہی انسانی حقوق کے لیے سفیر مقرر کرے گی۔

فرانس میں 2019 میں ہونے والا آخری خواتین ورلڈ کپ دنیا کے 205 ممالک میں ایک ارب سے زیادہ شائقین نے دیکھا تھا۔

پروفیسر نولان نے کہا، "اگر آپ ایک میزبان ملک کے طور پر کسی بڑے ایونٹ میں حصہ لے رہے ہیں اور اس ایونٹ کے فوائد حاصل کر رہے ہیں، تو آپکو کچھ ہاؤس کیپنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے"۔

شئیر

تاریخِ اشاعت بجے

تخلیق کار Isabelle Lane
پیش کار Nida Tahseen
ذریعہ: SBS

Follow SBS Urdu

Download our apps
SBS Audio
SBS On Demand

Listen to our podcasts
Independent news and stories connecting you to life in Australia and Urdu-speaking Australians.
Once you taste the flavours from Pakistan, you'll be longing for the cuisine.
Get the latest with our exclusive in-language podcasts on your favourite podcast apps.

Watch on SBS
Urdu News

Urdu News

Watch in onDemand