آسٹریلیا نے غزہ میں فلسطینیوں کے "غیر انسانی قتل" کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ ختم کرے۔ ایک لیبر فرنٹ بینچر کے مطابق، یہ تقریباً دو سال سے جاری اس جنگ کے دوران حکومت کی جانب سے دیا گیا سب سے سخت بیان ہے۔
وزیر خارجہ پینی وونگ سمیت برطانیہ، فرانس، اور کینیڈا کے وزرائے خارجہ کے ساتھ دستخط شدہ ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کے تشدد کے فوری خاتمے اور بھوکے فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی سے انکار کی مذمت کی گئی ہے۔ تاہم امریکہ اس بیان کا فریق نہیں بنا۔
اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ "حقیقت سے منقطع ہے اور حماس کو غلط پیغام دیتا ہے"۔ حماس فلسطینی سیاسی و عسکری تنظیم ہے جو غزہ پر حکمرانی کرتی ہے۔
یہ مشترکہ بیان ایسے وقت پر جاری ہوا جب منگل کے روز مئی کے وفاقی انتخابات کے بعد پارلیمان کے پہلے اجلاس کے موقع پر کینبرا میں فلسطین کے حامی مظاہرین نے ریلی نکالی۔
بیان میں امداد کی "قطرہ قطرہ" فراہمی کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ "خوفناک" ہے کہ امداد کے متلاشی 800 سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں، جسے "غیر انسانی" قرار دیا گیا۔
یہ اُس وقت سامنے آیا جب منگل کے روز کینبرا میں فلسطین کے حامی افراد نے اُس وقت مظاہرہ کیا جب مئی کے وفاقی انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔
ان ممالک نے غزہ میں فلسطینیوں کو امداد کی "قطرہ قطرہ فراہمی" کی مذمت کی اور کہا کہ یہ "ہولناک" ہے کہ امداد کی تلاش بیان کے مطابق، مرنے والوں کی اکثریت غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے ان مقامات کے آس پاس تھی جہاں امریکہ اور اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قیادت میں قائم امدادی نظام کو ہٹا کر خود امداد کی ترسیل سنبھالنے کی حمایت کی تھی۔
مشترکہ بیان میں وزرائے خارجہ نے کہا: "اسرائیلی حکومت کا امدادی ترسیل کا ماڈل خطرناک ہے، عدم استحکام کو ہوا دیتا ہے اور غزہ کے عوام کو انسانی وقار سے محروم کرتا ہے۔"
انہوں نے کہا: "غزہ میں شہریوں کی تکالیف نئی انتہاؤں کو چھو رہی ہیں۔"مزید کہا گیا: "غزہ کی جنگ کو اب ختم ہونا چاہیے۔"
اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے کہا: "یہ بیان حماس پر دباؤ ڈالنے میں ناکام ہے اور موجودہ صورتحال میں حماس کے کردار اور ذمہ داری کو تسلیم نہیں کرتا۔"
اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون ساعر نے بعد ازاں پیر کے روز اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ لامی سے علاقائی اُمور، بشمول غزہ، پر بات کی۔ انہوں نے حماس کو "عوام کی تکالیف اور جنگ کے تسلسل" کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے اس بیان کو "قابلِ نفرت" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرانا "غیر منطقی" ہے، کیونکہ حماس ہر جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے پوپ لیو سے ٹیلیفونک گفتگو کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے پوپ کو بتایا کہ اسرائیل نے مغویوں کی رہائی اور 60 دن کی جنگ بندی کے لیے جو کوششیں کی ہیں، "ابھی تک حماس کی جانب سے ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔"
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ گروپ غزہ کی جنگ میں ایک عبوری جنگ بندی کے حق میں ہے، لیکن اگر مذاکرات سے ایسا معاہدہ نہ ہو سکا، تو وہ مکمل پیکج معاہدے پر زور دے سکتا ہے تاکہ جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
ابو عبیدہ کے مطابق، حماس بارہا یہ پیشکش کر چکا ہے کہ وہ تمام مغویوں کو رہا کر کے مستقل جنگ بندی کے معاہدے پر تیار ہے، لیکن اسرائیل اس سے انکار کرتا رہا ہے۔
حماس کا مؤقف ہے کہ کسی بھی معاہدے کو جنگ کے خاتمے کی طرف لے جانا چاہیے، جبکہ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ اُس وقت ہی ختم ہوگی جب حماس کو غیر مسلح کر کے اس کی قیادت کو غزہ سے نکال دیا جائے گا۔
"اسرائیلی طرزِ عمل ناقابلِ دفاع ہے"
منگل کے روز اے بی سی نیوز بریک فاسٹ پر آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی برک سے پوچھا گیا کہ کیا یہ وہ سب سے سخت بیان ہے جو آسٹریلیا نے 7 اکتوبر 2023 کو تنازع کے شدت اختیار کرنے کے بعد سے جاری کیا ہے؟
برک نے جواب دیا: "ایسا ہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا:
"ہم نے اس دوران کئی سخت بیانات جاری کیے ہیں۔ ہم یہ یقینی بناتے رہے ہیں کہ جب بھی ہم اس نوعیت کا کوئی بیان جاری کریں، تو زیادہ سے زیادہ ممالک کو ساتھ لے کر آئیں۔"
برک نے کہا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کیا جانا چاہیے، لیکن غزہ میں جاری "قتل عام" کو بھی ختم ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا: "ہم نے بچوں کے قتل، خوفناک خونریزی، اور گرجا گھروں پر بمباری کی بہت سی تصاویر دیکھی ہیں۔ جو مناظر ہم دیکھ رہے ہیں وہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک ناقابلِ دفاع ہے، اور جیسا کہ بیان میں بھی ذکر کیا گیا، امداد صرف قطرہ قطرہ دی جا رہی ہے۔"
اپوزیشن لیڈر سوسن لی نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ مشترکہ بیان کی حمایت کرتی ہیں یا نہیں۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ "امداد اُن لوگوں تک پہنچے جو اس کے حقدار ہیں"، لیکن ان کے مطابق سب سے "اہم بات" باقی ماندہ یرغمالیوں کی بازیابی ہے۔

Save The Children estimates between 50,000 and 80,000 Palestinian people are sheltering in Deir al-Balah. Source: Getty / Dawoud Abo Alkas
اپوزیشن کے فرنٹ بینچر جوناتھن ڈونیئم نے کہا کہ اسرائیل کو "اپنی دفاع کا حق" حاصل ہے اور آسٹریلیا کا اس مشترکہ بیان پر دستخط کرنا درست اقدام نہیں تھا۔
انہوں نے اسکائی نیوز کو بتایا: "یہ مسئلہ اس خط سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، اور میرے خیال میں ہماری حکومت کا دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس خط پر دستخط کرنا افسوسناک قدم ہے۔"
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج
منگل کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریلیا، ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز، اور آکسفیم آسٹریلیا سمیت کئی تنظیموں نے پارلیمنٹ کے لان پر احتجاج کا اعلان کیا۔
ایمنسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ آسٹریلوی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل پر جنگ کے خاتمے کے لیے "ٹھوس عملی اقدامات" کرے۔
بیان میں کہا گیا: "ہم وزیر خارجہ کی جانب سے آسٹریلیا کی نمائندگی کرتے ہوئے دستخط کیے گئے اس مضبوط بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں، جس میں غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے اور امداد کی مکمل ترسیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن اگر فوری اور عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ الفاظ کھوکھلے ثابت ہوں گے۔"
تنظیم کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹوں تک ارکانِ پارلیمنٹ، ڈاکٹرز، صحافی، اساتذہ، فنکار، مصنفین، اور کمیونٹی ارکان غزہ کی جنگ میں مارے گئے 17,000 سے زائد فلسطینی بچوں کے نام پڑھ کر سنائیں گے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر گرینز کے سینیٹر ڈیوڈ شو بریج ایک پٹیشن پیش کریں گے جس پر آسٹریلیا کے 2,500 سے زائد طبی عملے کے ارکان نے دستخط کیے ہیں۔ اس پٹیشن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے تشدد، ناکہ بندی، اور غزہ میں امداد کو ہتھیار بنانے جیسے الزامات کے خلاف عملی اقدامات کرے۔
پٹیشن کی منتظم اور فارماسسٹ یسریٰ ابو الفضل نے کہا: "اس خط پر ہر دستخط اس نسل کشی کے خلاف خاموشی سے انکار کی ایک آواز ہے۔"
انہوں نے کہا: "ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے جب ہمارے ساتھی غزہ میں مارے جا رہے ہیں، اسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور مریضوں کو بنیادی طبی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔"
"الفاظ کافی ہو چکے، بیانات کافی ہو چکے، اب عمل کا وقت ہے۔"
یہ مطالبہ ایسے وقت پر سامنے آیا جب اسرائیلی ٹینکوں نے پیر کے روز پہلی بار غزہ کے شہر دیر البلح کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی۔
حماس کی قیادت میں عسکریت پسندوں کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی اس لڑائی کو 21 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
غزہ میں جاری اسرائیلی مہم میں اب تک 59,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، غزہ کی صحت حکام کے مطابق، جب کہ تازہ ترین ہلاکتیں پیر کو اسرائیل کی جانب سے وسطی غزہ میں نئے حملے کے دوران رپورٹ ہوئیں۔
— آسٹریلین ایسوسی ایٹڈ پریس اور روئٹرز کے ساتھ رپورٹنگ
_____