میکواری یونیورسٹی کے شعبہ کاروبار اور معاشیات نے سال دو ہزار گیارہ کے آسٹریلوی مردم شماری کے اعداد و شمار پر تحقیق کی ہے، جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگرچہ آسٹریلوی مزدور یا ملازمت پیشہ افراد میں ہر رنگ و نسل کا شخص پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اداروں میں "سی ای او (منتظمِ اعلیٰ)" یا "مینیجنگ ڈائریکٹر" کا عہدہ سب کے لئے نہیں۔
آسٹریلیا کے تمام اداروں کے سی ای او اور مینیجنگ ڈائریکٹر کے اعداد بتاتے ہیں کہ ان عہدوں پر بیٹھے جن افراد کا تعلق (جائے پیدائش) برطانیہ سے ہے، ان کی تعداد آٹھ عشاریہ ایک فیصد ہے جبکہ مجموئی ورک فورس میں ان کی تعداد صرف چار عشاریہ نو ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نہ صرف انگریزی بولنے والے ملک سے تعلق آپ کے کیرئیر کے لئے بہتر ہوسکتا ہے، بلکہ اگر آپ بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں تو یہ بھی آپ کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے۔

Source: Moodboard
رپورٹ پر تحقیقدان ڈاکٹر نک پار نے کام کیا ہے۔
" ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ وہ تارکینِ وطن جن کی انگریزی زبان پر زیادہ مہارت ہے اور چاہے ان کا تعلق جرمنی یا ہالینڈ سے ہی کیوں نہ ہو، ان میں بھی سی ای او بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔"
اس کے مقابلے میں ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کی ایگزیکیٹو کی سطح پر تعداد بہت کم ہے۔ صرف جاپان اور جنوبی کوریا سے مائیگرینٹس ہی کی لئے کچھ فرق نظر آتا ہے۔
دوسری نسل
اس تحتقیق میں دوسری نسل (سیکنڈ جینیریشن) پر بھی تحقیق کی گئی ہے۔
ریسرچ کے مطابق یونان اور لبنان سے تعلق رکھنے والے افراد بڑے عہدوں (سینیئر پوزیشنز) پر فائز ہیں۔ حالانکہ اَسّی کے دہائی میں اِن میں کافی بےروزگاری پائی جاتی تھی۔
دوسری جانب پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جنوبی یورپ سے آنے والے افراد کو مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملازمت ملتی تھی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس شعبہ میں سی ای اوز کا تعلق جنوبی یورپ سے ہے۔
لیکن اس ریسرچ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انگریزی بولنے یا بولنے والے ممالک سے تعلق آپ کے لئے ملازمت کی سیڑھی میں بہتر کیوں ہے۔
ڈاکٹر پار کا کہنا ہے کہ شاید یہ ملازمت کی شروعات یا پرومشن کے وقت غیر امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔
کچھ عرصے قبل آسٹریلین ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ میں بھی یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ آسٹریلیا میں پچانوے فیصد ایگزیکیٹو اور ستانوے فیصد سی ای اور کا تعلق اینگلو سیلٹِک یا یورپی خطّے سے ہے۔
شئیر
