پاکستان میں زراعت کا شعبہ معیشت کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے جس میں تقریباّ آدھی لیبر فورس کام کرتی ہے۔
آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں ہونے والی اس کانفرس میں پینتالیس ممالک سے لوگ شرکت کررہے ہیں جن میں پاکستان کے نمایندگان بھی شامل ہیں۔
کانفرنس کا مقصد مختلف ممالک میں کام کرنے والوں کے مسائل کو سمجھنا اور حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔
آسٹریلین سینٹر فارانٹرنیشنل اگریکلچرل ریسرچ پاکستان ( اے سی آئی اے آر پاکستان) کے کنٹری مینیجر، منّور کاظمی کا کہنا ہے کہ وہ کانفرس میں پاکستان میں زراعت کے شعبے میں مرد اور خواتین کی کاوشوں پر بات کریں گے۔
"زراعت کے شعبے میں جو صنفی مسائل ہیں انھیں ہم سامنے لائیں گے اور کانفرنس میں جو دنیا بھر سے آئے ہوئے ماہرین ہیں ان کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں گے۔
"آپ ایک ہاتھ سے کام کرکے اتنے موثر نہیں ہوسکتے جتنے دونوں ہاتھوں کے ذریعے کام میں بہتری لاسکتے ہیں۔"

Pakistani women plant paddy seedlings in Narowal, Pakistan, 07 July 2014. EPA/RAHAT DAR Source: EPA
ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے منّور کاظمی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کسانوں میں ستّر فیصد خواتین ہیں جو کھیتوں میں کام رہی ہیں لیکن معاشی اور دیگر حقوق کے سلسلے میں انھیں درگزر کردیا جاتا ہے۔
"زمین کی ملکیت، پراپرٹی یا پیسوں کی بات کی جاتی ہے تو اس وقت خواتین کو درگزر کردیا جاتا ہے۔"
جب دیہی علاقوں سے مرد نوکریوں کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے ہیں تو زمینیں یا تو خالی پڑی رہتی ہیں یا خواتین اس پر کام کرتی ہیں۔ اب ہم ان خواتین کے ساتھ کام کررہے ہیں تاکہ وہ مناسب طریقے سے کام کرسکیں۔"
منّور کاظمی کا کہنا تھا کہ اگرچہ خواتین چاہتی ہیں کہ وہ اپنے کام میں بہتری لائیں لیکن اس سلسلے میں کئی مشکلات ہیں۔

Munawar Kazmi, Country Manager ACIAR Pakistan Source: SBS
" ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرتی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین کی حوصلہ افزائی کریں۔"
منّور کاظمی کا کہنا تھا کہ زراعت محقق اور سائنسدانوں کو بھی مشکلات پیش آتی ہیں کو وہ کس طرح خواتین مزدوروں کے ساتھ ملکر کام کریں۔
"آسٹریلوی اور پاکستانی حکومتیں دونوں کوشش کر رہی ہیں کہ کس طرح خواتین کو مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ زراعت میں صنفی مساوات میں بہتری لائی جائے۔"
اس سلسلے میں خواتین کی آگاہی کے لئے کام کرنے والی خواتین تحقیق دان پاکستان سے آئی ہیں جو ان پرجیکٹس کا دوسرے تحقیق دانوں کے سامنے کانفرنس میں پیش کریں گی۔
اے سی آئی آر کے منتظمِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے چند سال پہلے ایک سروے کرایا تھا جس سے پتہ چلا تھا کہ خواتین اور مردوں میں زرعی اور دیگرمسائل کو حل کرنے میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔

EPA/RAHAT DAR Source: EPA/RAHAT DAR
"سروے سے یہ پتہ چلا کہ مرد کاشتکار کا محور اس وقت کی فسل ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں خاتون کاشتکار جو اپنا گھر سنبھالتی ہے، اس کی دلچسپی اگلی فسلوں میں بھی ہوتی ہے تاکہ روزگار کا سلسلہ بغیر کسی تاخیر یا مشکل کے چلتا رہے۔
" اگر گندم کی کاشت ہوتی تو مرد کاشتکار یہ دیکھتا کہ چھے مہینے بعد مجھے اس کے کتنے پیسے ملیں گے، جبکہ خاتون کاشتکار یہ سوچتی کہ میں اس فصل میں ایسا کیا کروں کہ میری اگلی فسلوں کو فائدہ پہنچے۔"
منّور کاظمی کا کہنا تھا کہ صنفی مساوات کو بہتر کرنے کیلئے حکومتِ پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔
شئیر


