سائنس زندہ ہے۔
آسٹریلیا کے سب سے بڑے تہواروں میں سے ایک نیشنل سائنس ویک کا آغاز ہورہا ہے۔ یہ تہوار ایک ہفتے کیلیے 13 سے 21 اگست تک ملک بھر میں منایا جائے گا جس میں یونیورسٹیوں، اسکولوں، تحقیقی اداروں، لائبریریوں، عجائب گھروں اور سائنس مراکز کی 1000 سے زیادہ گفتگو اور سرگرمیایوں کا انعقاد کیا جائے گا۔
آسٹریلیا میں یہ ہفتہ نیشنل سائنس ویک کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس ہفتے کو خصوصا سائنسدانوں سے ملنے، گرما گرم موضوعات پر گفتگو کرنے، سائنس کے معاشرے پر ثقافتی اور معاشی اثرات کو سمجھنے کی غرض سے منایا جاتا ہے۔ اسکا انعقاد پہلی بار 1997میں کیا گیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک کے سب سے بڑے تہواروں میں سے ایک بن گیا۔
نیشنل سائنس ویک کو آسٹریلوی حکومت، کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (سی ایس آئی آر او) اور آسٹریلین سائنس ٹیچرز ایسوسی ایشن کا تعاون حاصل ہے۔
اس ہفتے کے دوران، انڈجینس فلکیات، فلکی طبیعیات، کیمسٹری، موسمیاتی تبدیلی، فرانزک، مستقبل کی خوراک، ڈرونز ، ڈائنوسار اور کئی طرح کے بے تحاشہ تجربات دیکھنے کو ملیںگے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی آسٹریلیا کی چیف ایگزیکٹو میشا شوبرٹ کا کہنا ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی یعنی سٹم کے شعبوں میں ٹیلنٹ کی اگلی نسل کو دریافت کرنے کے لیے ایک نیے جذبے اور دباو کی ضرورت ہے۔
لیکن اگر سطح کے نیچے دیکھا جائے تو سائنس میں صنفی فرق اور تنوع کی وجہ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
M3 کی جانب سے کی گئی نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ 72 فیصد آسٹریلین باشندے جن میں زیادہ تر طلبہ اور خواتین شامل ہیں کو سٹم کی تعلیم حاصل کرنے اور اس میں اپنا کریئر بنانے کیلیے بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسٹیٹ آف سائنس انڈیکس برائے 2022 کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ 86 فیصد آسٹریلوی اس بات پر متفق ہیں کہ سٹم شعبوں میں تنوع اور شمولیت کو بڑھانا ضروری ہے۔ جبکہ 68 فیصد باشندوں کا خیال ہے کہ کم نمائندگی والی اقلیتوں کو اکثر مساوی رسائی نہیں ملتی۔
اسٹیٹ آف سائنس انڈیکس ایک عالمی بینچ مارکنگ سروے ہے جو اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ لوگ اور معاشرہ سائنس کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں ان شعبوں میں کیریئر بنانے سے حوصلہ شکنی محسوس کرتی ہیں اسلیے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے بہت زیادہ کام اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
17سالہ جارجیا ٹونکن ایک بین الاقوامی ارتھ سائنس اولمپیاڈ میں شریک ہے اور کینبرا میں ایک کیتھولک اسکول میریسی کالج میں 12 بارویں جماعت کی طالبہ ہے -
گریڈ 12 اکثر وہ سال ہوتا ہے جہاں بہت سے طلباء یہ سوچتے ہوئے اضافی دباؤ، تناؤ اور اضطراب محسوس کرتے ہیں کہ وہ اسکول کے بعد کیا کرنے جا رہے ہیں اور وہ کیا بننا چاہتے ہیں۔
یہ جارجیا جیسے عزائم رکھنے والے کمیونٹی کے رہنما ہیں جو ترقی اور تبدیلی کے مطالبات کر رہے ہیں اور ان ثقافتی رکاوٹوں کو توڑنے میں مدد کر رہے ہیں جو نوجوانوں کو اس صعنت میں آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں۔
محترمہ شوبرٹ کہتی ہیں کہ وہ مزید ایسے عوامی ترجمان دیکھنا چاہتی ہیں جو عوام میں اس صنعت کے کردار ،ملازمت کے عنوانات کے بارے میں سمجھ کو بہتر بنائیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ پیشے کثیر الثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے والدین کو اپنی صنعت اور دنیا پر اس کے اثرات کے بارے میں تعلیم دینے اور عوامی طور پر قابل رسائی وسائل فراہم کرنے کے لیے کافی اقدارم نہیں اٹھا رہے۔
جارجیا کا کہنا ہے کہ ان کے والدین تو ان کے سائنسی عزائم کی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھیوں کے لیے ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔
تو پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ خواتین انجینئرنگ جیسے پیشوں میں داخل نہیں ہو رہی اور ہمیں کیا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟
انجینئرز آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ ملک اپنی اب تک کی بدترین انجینئرنگ مہارت کی کمی کی گرفت میں ہے۔
انجینئرنگ آسٹریلیا نے اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکیوں کی جانب سے انجینئرنگ کا مطالعہ نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ جانتی ہی نہیں ہیں کہ انجینئرنگ کیا ہے۔
انجینئرز آسٹریلیا کے چیف انجینئر جین میک ماسٹر کا کہنا ہے کہ خواتین آسٹریلیا کی افرادی قوت کا 48 فیصد ہیں لیکن ملک کے کام کرنے والے انجینئرز کا صرف 13 فیصد حصہ ہیں، انھوں نے زور دیا کہ اس اعداد و شمار کو تاثر اور سمجھ کے ذریعے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
محترمہ میک ماسٹر کہتی ہیں کہ انجینئرنگ آسٹریلیا خواتین انجینئرز کے تعاون کی قدر بڑھانے کیلیے، انکی حمایت اور کامیابیوں کا جشن منا کر انجینئرنگ کو مزید جامع اور دلکش بنانے کے نئے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے صنعت و سائنس ایڈ ہوسک کا کہنا ہے کہ البانی حکومت صنفی فرق کو ختم کرنے اور آنے والی نسل کو اس ہنرمند سیکٹر کا حصہ بننے کی ترغیب دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت 500,000 ڈالر کی فنڈنگ کے ساتھ 35 نیشنل سائنس ویک منصوبوں کی حمایت کر رہی ہے اور مہارت کی کمی کے وسیع چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔