آسٹریلیا کے اعداد و شمار خواتین اور بچوں پر تشدد کے حوالے سے کافی مایوس کن ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 2022 میں آسٹریلیا میں 60 خواتین اور بچے قتل کیے گئے اور ایسا کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ایسا شخص تھا جس نے ان سے بہت بار محبت کا اظہار کر چکا تھا۔
یہ اعداد و شمار ایک رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے ادارے امپیکٹ کی جانب سے شائع کیے گئے ہیں۔ یہ تنظیم گھریلو تشدد سے بھاگنے والے افراد کی فلاح کیلیے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تشدد کا یہ سلسلہ چھوٹی عمر میں ہی شروع ہو جاتا ہے جب بچے لاشعوری طور پر اپنے ارد گرد موجود بالغ افراد کے رویوں اور عقائد سے سیکھنا شروع کرتے ہیں۔
والدین کو احترام پر بات کرنے کیلیے مواقع تلاش کرنے چاہیے
ماہرین کے مطابق احترام کی اہمیت پر بات کرنے کیلیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔ آپ کو بطور والدین بہت سے مواقع ملتے ہیں جب آپ اپنی اولاد سے اس پر بات کر سکتے ہیں جیسے اگر آپ کے بچے کسی بات پر لڑ پڑیں اور ایک دوسرے کے بال نوچیں یا آپ کا بیٹا اپنی خواتین دوستوں سے بدسلوکی کرے۔ نیز اس معاملے پر کسی بھی وقت بات کی جاسکتی ہے۔
پیرنٹنگ ایکسپرٹ ڈاکٹر روزینہ میک الپاین کہتی ہیں کہ جب والدین بچوں کے منفی رویوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کریتے ہیں کہ ابھی تو یہ بچہ ہے یا لڑکے ایسے ہی کرتے ہیں یا اوہو! وہ تو مزاق کر رہا تھا، تو اسکا مطلب ہے کہ وہ بچے کو بدتمیز بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی کتاب انسپائرڈ چلڈرن میں والدین کو مشورہ دیا ہے کہ بچوں سے متعلق مشکل صورتحال میں وہ تین اقدام اٹھا سکتے ہیں:
پہلا یہ کہ وہ خود جو کچھ کر رہے ہوں اسکو روک دیں اور پھر پرسکون ہو کر تسلی سے بچے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جب انکو بچوں کی لڑائی کی وجہ سمجھ آجائے تو پھر انکو دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھائیں۔
ڈاکٹر میک الپائن کہتی ہیں کہ انکی پرورش ایسے گھر میں ہوئی جہاں تشدد کا سلسلہ ان کے دادا سے والد کومنتقل ہوا تھا ڈاکٹر میک الپائن نے اس سلسلے کا تجربہ اپنی ذات پر کیا ہے ۔
ہمارے والد اس نسل سے تھے جہاں ان کا ماننا تھا کہ نظم و ضبط اور جسمانی سزا ہی بچوں کی اچھی پرورش کا طریقہ ہے۔
ڈاکٹر میکالپائن کہتی ہیں کہ جب بالغ یا بچے اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں، تو یہ جذبات، پہلے غصے اور پھر تشدد کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ غصہ دکھائے بغیر رویے کو سمجھنے اور پھر تبدیل کرنے کی تکنیک سیکھنا پہلا قدم ہے۔

family Source: Pixabay
ڈاکٹر میکالپائن نے اپنے خاندان میں چلتے اس تشدد کی روایت کو توڑنے کی مد میں بہت تحقیق کی ہے تا کہ والدین کو بچوں کی پرورش کے بہتر طریقے سکھانا بہت ضروری ہے۔

Portrait of a young woman on a white background. Source: iStockphoto
احترام کے بارے میں بات کرنا کچھ والدین اور بچوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے احترام کے بارے میں رسمی گفتگو کرنے کے لیے بیٹھنے کے بجائے، بالغ افراد روزمرہ کے حالات سے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اسٹاپ اٹ آیٹ اسٹارٹ' مہم کاونسل آف آسٹریلین گورنمنٹس کا ایک قدم ہے ، جس کا مقصد صنف کی بنیاد پر ہونے والے ہر قسم کے تشدد کے سلسلے کو روکنا ہے ۔ انکے پاس اس قسم کا مواد آن لائن موجود ہے جو والدین کو بچوں کے ساتھ احسن طریقے سے گفتگو کرنا سکھاتا ہے۔
سماجی خدمات اور خاندانی تشدد کی روک تھام کے اسسٹنٹ منسٹر جسٹن ایلیٹ کا کہنا ہے کہ ہم سب تشدد کی روک تھام میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسٹاپ اٹ ایٹ دی اسٹارٹ کمپین اپنے چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہے اور تحقیق سے پتہ چل رہے ہے کہ یہ کامیاب بھی ہورہی ہے۔
تو آئیے اپنے بچوں کو باعزت رویے اختیار کرنے کی تعلیم دیں اور اپنے مثبت رویوں سے تشدد کی وجوہات کو پہچانیں۔ یقین رکھیں کہ ہم اسے شروع میں ہی روک سکتے ہیں، اور اپنی اولاد کیلیے ایک رول ماڈل بن سکتے ہیں۔