ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی میں تقریباً 850,000 افراد کی کمی کی بڑی وجہ چین کی ون چائلڈ پالیسی ہے ، جسے ختم کردیا گیا تھا مگر اس کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ون چائلڈ پالیسی کے علاوہ بڑھتے ہوئے اخراجات اور کووِڈ کے باعث عائد پابندیاں بھی آبادی میں کمی کا باعث بنی ہیں۔
یاد رہے کہ چھ دہائیوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چین نے آبادی میں کمی کی اطلاع دی ہے۔
ملک کے قومی ادارہ شماریات نے رپورٹ کیا ہے کہ سال 2022 میں چین کی آبادی تقریباً 850,000 افراد کی کمی کے ساتھ 1.4 بلین رہ گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق چین میں شرح پیدائش 7.52 سے کم ہوکر 6.77 ہوگئی ہے جو اس وقت تک کی سب سے کم شرح ہے۔
ہانگ کانگ میں مقیم ماہر اقتصادیات جانو چان نے اس اچانک گراوٹ کی کچھ اہم وجوہات بیان کی ہیں۔
یاد رہے کہ 1980 میں شروع ہونے والی ون چائلڈ پالیسی اس وقت کے رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ کی طرف سے بڑھتی ہوئی آبادی کو نمٹنے کے طور پر لاگو کی گئی تھی۔ جسکے تحت کسی بھی جوڑے کیلیے ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے پر پابندی عائد تھی۔
اس قانون کو نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی پلاننگ کمیشن کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا جو ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے افراد پر جرمانہ عائد کرتا تھا اور اس قانون کے دائرہ کار کے تحت اکثر ماؤں کو اسقاط حمل پر مجبور کیا جاتا تھا۔
تاہم بعد میں عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتی ہوئی افرادی قوت سے نمٹنے کی کوشش میں 2016 میں چین نے اپنی پالیسی میں لچک پیدا کرتے ہوئے دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی اور پھر 2021 میں تین بچوں کی پالیسی متعارف کروائی ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، زندگی کی دشواریاں اور بچوں کی نگہداشت پر آنے والے اخراجات نے نئے جوڑوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جس کے باعث انکی ایک بڑی تعداد والدین بننے کیلیے تیار نہیں ہے۔
چین میں سالانہ اس کے علاوہ چینی حکومت نے مجموعی گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی کا سالانہ ہدف 5.5 طے کیا تھا جبکہ پچھلے سال ریکارڈ کیا گیا جی ڈی پی صرف 3 فیصد تھا جو 1976 کی سطح سے بھی نیچے آگیا ہے۔
چین کے قومی ادارہ شماریات کے سربراہ کانگ یی کا کہنا ہے کہ اس خراب کارکردگی اور آبادی میں کمی کے باوجود چینی حکومت مستقبل کے معاشی امکانات کے بارے میں پر امید ہے۔
ڈیپ ڈیٹا اینالیٹکس کے سی ای او متھن سوماسندرم کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آسٹریلین معیشت چین میں متوقع معاشی بدحالی کے دباؤ کو محسوس کرے گی۔
طویل عرصے سے متوقع آبادی میں کمی کے اعلان کے بعد، آسٹریلیا کی شیئر مارکیٹ نے حصص بازار کے سرکردہ انڈیکس سے 0.03 فیصد گرنے کا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
مسٹر سوماسندرم نے وضاحت کی کہ اگرچہ یہ توقع سے بہتر ہے، لیکن مستقبل میں معاشی بحران کے امکانات نے ہماری مارکیٹ میں مزید بہتری کی امید کو خدشات سے دوچار کر دیا ہے۔
دوسری جانب موجودہ آبادی کے تخمینوں کے مطابق بھارت اس سال چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ جسکی وجہ ہے کہ 2021 سے 2022 کے درمیان بھارت کی آبادی میں 9.6 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
ان تخمینوں کے باوجود ہانگ کانگ کے ماہر اقتصادیات جانو چن کا خیال ہے کہ ہندوستان ابھی زیادہ دیر تک چین کی اقتصادی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں ہندوستان میں تیزی سے پھیلتی آبادی کے منفی نتائج کے بارے میں خدشات ابھر رہے ہیں۔
رینبو چلڈرن ہسپتال کی ایک سینئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر رنکو سین گپتا دھر نے آبادی میں اس تیزی سے اضافے کو خطرناک قرار دیا ہے۔ اور خبردار کیا ہے کہ اس سے ملکی اخراجات میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوگا۔
بھارت کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر، نئی دہلی کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ بے قابو آبادی معیشت کی شرح ترقی میں رکاوٹ ڈالے گی۔
دوسری جانب اسکے باوجود کے کووڈ – 19 کے باعث چین بحران کی لپیٹ میں ہے اور ملک میں 1976 سے اب تک کی سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں لیکن پھر بھی چینی حکام نے آبادی میں کمی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی باضابطہ پالیسی اختیار نہیں کی اور حکام امید کر رہے ہیں کہ وبائی مرض سے نکلنے کے بعد ملک معاشی خوشحالی کی طرف واپسی کا باعث بنے گا۔