نیو ساؤتھ ویلز حکومت نے مارچ کے ریاستی انتخابات میں جیتنے کی صورت میں، آن لائن گھریلو تشدد کا انکشاف کرنے والی اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس اقدام کی بنیاد 2016 کے مقدمے پر رکھی گئی ہے جس سے لوگوں کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آیا ان کے ساتھی ماضی میں گھریلو تشدد مرتکب ہوئے تھے یا نہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز کی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر اس تصور کی حمایت کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنے ساتھی کی گھریلو تشدد کی تاریخ چیک کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، لیکن اس اقدام کو اٹھانے سے قبل کچھ مزید تفصیلی معلومات کا تبادلہ ہونا لازمی ہے۔
ڈومینک پیروٹیٹ اور ان کی حکومت کی تجویز کردہ اس نئی اسکیم کے تحت نیو ساؤتھ ویلز کے رہائشی جلد ہی یہ دریافت کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ آیا ان کے ساتھی کی گھریلو تشدد کی تاریخ رہی ہے یا نہیں۔
اگر یہ حکومت مارچ میں ہونے والے اسٹیٹ الیکشن جیت جاتی ہے تو اس اسکیم کے تحت بہت سے لوگوں کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنے ساتھی کی گھریلو تشدد سے متعلق چھان بین کر سکیں۔
ریاست کے پریمیئر ڈومینک پیروٹیٹ نے اس اسکیم کے اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کی تاکہ اس مجوزہ اسکیم کے پرواگرام کے بارے مین تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ اس اسکیم کے کامیابی سے اطلاق ہونے پر گھریلو تشدد سے روک تھام میں مدد ملے گی۔
ہمیں اس بات کو سوچنے اور یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے نئے طریقے دریافت کریں کہ آج کی پالیسیاں ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق ڈھل جائیں اور نیو ساؤتھ ویلز میں خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے معلومات حاصل کی جاسکیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس پالیسی کے اطلاق سے حقیقی فرق پڑے گا۔
رائیٹ ٹو آسک نامی اس اسکیم سے ریاست بھر کے افراد کو ایک ہاٹ لائن کال نمبر دیا جائے گا اسکے علاوہ وہ آن لائن بھی ایک معلوماتی پورٹل کے ذریعے معلومات حاصل کر سکیں گے۔
یہ سزاوں سے متعلق معلومات ہونگی، میں اس بارے میں مزید معلومات لے رہا ہوں اور اس میں بہتری کے لیے پولیس کمیشن کے ساتھ کام بھی کروں گا تاکہ کم از کم گھریلو تشدد سے متعلق سزاوں کے بارے میں اس پورٹل کے ذریعے جانا جا سکے۔
نیو ساؤتھ ویلز لیبر کی طرف سے مجوزہ سکیم کا اصولی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے۔
ریاست کے اپوزیشن لیڈر کرس منز کا کہنا ہے کہ وہ اس اسکیم کے بارے میں مزید تفصیلات دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن اصولی طور پر اس کے حامی ہیں۔
دوسری جانب پولیس کمشنر کیرن ویب کا کہنا ہے کہ جدید ڈیٹنگ کے انداز بدل گئے ہیں جس سے نئے خطرات کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے آکسلے، شوال ہیون، سدرلینڈ اور سینٹ جارج کے علاقوں میں بھی اسی قسم کی اسکیم آزمائی جائی چکی ہیں اور رہائشیوں کو صرف پولیس اسٹیشن جا کر اپنے ساتھی کے گھریلو تشدد کی تاریخ سے متعلق معلومات دی جاتی تھیں۔
اس اسکیم کو ابتدائی طور پر 2016 میں شروع کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس نے 50 سے زیادہ ممکنہ متاثرین کی مدد کی ہے۔ اسکے بعد 2018 میں اس اسکیم کی توسیع کی گئی۔
اس تصور کو نیو ساؤتھ ویلز گرینز نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، انکا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ پالیسی تیار کرتے وقت گھریلو تشدد کے حامیوں سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔
اگرچہ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حفاظت کو بہتر بنانے کے بارے میں ہے، ایڈوکیسی گروپوں کا کہنا ہے کہ اسکیم کے نفاذ میں تفصیل اہم ہے اور اس کے لیے معاون خدمات کے ساتھ مکمل تعاون کی ضرورت ہے۔
گھریلو تشدد نیو ساؤتھ ویلز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈیلیا ڈونووان کا کہنا ہے:
یہ اسکیم صرف اس صورت میں کامیاب ہوگی جب ہم سروسز کے ساتھ کام کر رہے ہوں اور یہ سروس مناسب طریقے سے منسلک ہوں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے حوالہ جات کیے جاسکیں کہ متاثرین ہیں اگر وہ اسکیم تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو وہ محفوظ ہیں۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے اس اسکیم کو مثر بنایا جاسکتا ہے۔
جاری کی جانے والی معلومات میں گھریلو تشدد یا دیگر پرتشدد جرائم کے لیے سزائیں شامل ہو سکتی ہیں، جن میں قتل، جنسی حملہ، املاک کو نقصان پہنچانا، تعاقب کرنا اور ڈرانا۔
برطانیہ میں یہ اسکیم کلئیرز لا پر مبنی ہے، اس اسکیم کا نام کلیئر ووڈ نامی خاتون کے نام پر رکھا گیا ہے، جسے انگلینڈ میں ایک سابق ساتھی نے قتل کیا تھا۔ ان کے قاتل کو پولیس پہلے سے ہی خطرناک جانتی تھی۔
اس اسکیم کا آغاز 25 جنوری کی شب کو ایک آن لائن ڈیٹنگ سیفٹی راؤنڈ ٹیبل کے بعد کیا گیا، جسے وفاقی وزیر مواصلات نے بلایا تھا، اور اس میں ریاستی اور علاقائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ایڈوکیٹس بھی شامل تھے۔
فل اسٹاپ آسٹریلیا کی سی ای او ہیلی فوسٹر کہتی ہیں:
بدھ کی شب ہونے والی کاروائی کا مقصد ہے کہ ڈیٹنگ ایپس پر لازمی قرار دیا جائے کہ وہ انکی سروس حاصل کرنے والے ہر شخص کی شناخت کے ضوابط طے کرے اور ہر شخص پر لازم ہو کہ وہ اپنی شناخت ضاہر کئے بنا ایپ استعمال نہ کر سکے۔ یہ ہمیں یہ جاننے میں مدد دے گا کہ آیا کون کون اس ایپ کو استعمال کر رہا ہے اور اگر کچھ غلط ہوجاتا ہے تو ہم مناسب کاروائی کر سکیں۔ اور وہ شخص اپنا اکاونٹ عارضی طور پر ختم نہ کر سکے اور پھر نئے شکار کی تلاش میں پھر سے اکاونٹ ایکٹو نہ کرے۔
دوسری جانب اس اسکیم سے احسن طریقے سے فائدہ اٹھانے کیلیے ایڈوکیٹس قومی گھریلو تشدد کے رجسٹر متعارف کرانے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔