دسمبر 2022 میں دو پولیس اہلکاروں اور ایک مقامی رہاہشی کو کوئنزلینڈ کے ویمبالا نامی علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کے بیہیمانہ قتل نے آسٹریلیا میں اسلحے سے متعلق قوانین مزید سخت کرنے کی بحث کو تازہ کردیا تھا۔
تب آسٹریلیا میں اسلحے کی اندراج سے متعلق ایک نیشنل فائر آرمز رجسٹر کے قیام کا مطالبہ ابھر کر سامنے آیا تھا۔
اب حکومت نے اس حوالے سے عملی اقدامات کا اشارہ دیا ہے۔
یاد رہے کہ آسٹریلیا میں تین دہائی قبل پورٹ آرتھر خونریزی کے واقعے کے بعد اسلحہ قوانین سے متعلق بحث کا آغاز ہوا تھا۔
اس واقعے کی 28 ویں برسی کے موقع پر اٹارنی جنرل مارک ڈریفس نے اسلحہ رجسٹر سے متعلق حکومتی نکتہ نظر واضح کیا۔
آسٹریلوی حکومت سال 2028 تک اسلحہ رجسٹر کے قیام کے لیے پرعزم ہے جس پر مجموعی طور پر 160 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔
اس کے لیے آسٹریلیا کی تمام ریاستوں اور خطوں کی حکومتوں نے گزشتہ برس دسمبر ہی میں اپنی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔
فائر آرمز قوانین سے ملتے جلتے اس نیشنل فائر آرمز رجسٹر کے لیے بھی وفاقی حکومت کی سطح پر تمام جماعتوں کی مکمل حمایت حاصلے ہے۔
لبرل جماعت سے وابستہ رکن پارلیمان ڈین ڈیہان کے بقول یہ دیر آید مگر درست آید ہے۔
ان کے بقول حزب اختلاف کی خواہش ہوگی یہ کام جلد از جلد نمٹایا جائے۔
دوسری جانب اٹارنی جنرل ڈریفس کا کہنا ہے کہ نیشنل فائر آرمز رجسٹر کا قیام خاصا پیچیدہ کام ہے جس پر کافی وقت لگ سکتا ہے۔
گرچہ عمومی سطح پر اس نئے مجوزہ رجسٹر کے لیے خاصی زیادہ حمایت موجود ہے تاہم کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔
اسلحہ امور کی ماہر ریبیکا فیٹرز نے سال 2021 کے دوران ایس بی ایس کو بتایا تھا کہ پورٹ آرتھر خونریزی کے بعد یہ اتفاق رائے وجود میں آیا تھا کہ تمام خطے اسلحہ قوانین سے متلعق ابہام اور کمزوریوں کو دور کریں گی۔
تاہم سابقہ وزیر اعظم جون ہاورڈ کے بقول حقیقت میں ایسا نہیں ہوا اور ان کمزوریوں اور شگافات کو دور نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ تمام انفرادی ریاستوں نے اس بابت اپنی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔
گزشتہ برس ویسٹرن آسٹریلیا ریاست نے تجویز پیش کی تھی کہ اسلحہ رکھنے والوں پر تعداد کے حوالے سے حد نافذ کردینی چاہیے۔
پولیس منسٹر پاول پاپالیا کے بقول ریاست میں چوریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد لوگوں میں اسلحہ رکھنے کے روش ہی اس تجویز کا سبب بنی تھی۔
اٹارنی جنرل ڈریفس بھی اسی طرز کے سیفٹی اقدامات کے حامی ہیں۔