امریکا اور اسرائیل سمیت سات دیگر ممالک نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔
وزیر اعظم انتھونی البنیزی کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ آسٹریلیا کے متفقہ سیاسی موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
وزیر خارجہ پینی وونگ کا کہنا ہے کہ یہ ووٹ دراصل خطے میں قیام امن کی کوششوں کا حصہ ہے۔
انہوں نے البتہ یہ وضاحت کی ہے کہ اس ووٹ کا مطلب فلسطین کو فی الحال ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنا نہیں ہے۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد بھی فلسطین کو مکمل رکنیت تو نہیں ملی تاہم اقوام متحدہ میں ایک مبصر رکن کی حیثیت سے اس کے حقوق میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر برائس واکفیلڈ کا تعلق آسٹریلیئن انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ووٹ کے بعد فلسطین کو جنرل اسمبلی میں نشست مل جائے گی۔
وزیر اعظم البنیزی کا کہنا ہے کہ فلسطین کے لیے اقوام متحدہ میں نمائندگی ضروری ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ اور کینیڈا سمیت 25 ممالک نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
آسٹریلوی اپوزیشن البتہ حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اہم حلیف ممالک کے برعکس موقف اختیار کرنا 'باعث شرم' ہے۔
سابق وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ یہ آسٹریلیا کی جانب سے اسرائیل متعلق 'جارحانہ پالیسی' ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے خارجہ امور کے ترجمان سائمن برمنگھم کے بقول حکومت نے دباو میں آکر یہ فیصلہ کیا ہے اور یہ تشدد کو ہوا دے گا۔
وزیر اعظم البنیزی نے ان تمام الزامات کو رد کیا ہے۔
وزیر خارجہ پنی وونگ نے وضاحت کی ہے یہ قرارداد خاصی بہتر ہے اور آسٹریلیا حماس کے نظریے کی مخالف ہے۔
یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب اسرائیل پر دباو بڑ رہا ہے کہ وہ رفاح شہر پر حملہ نہ کرے جہاں جنگ سے پناہ لینے والے قریب 13 لاکھ افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔
گرین پارٹی کے سینیٹر میکس چانڈلر میتھر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں یہ ووٹ درست سمت میں ایک چھوٹا قدم ہے۔