"چکن گنیا" وائرس اس وقت آسٹریلیا میں مقامی طور پر نہیں پایا جاتا۔ یہاں ابھی تک مقامی طور پر کوئی کیسز رپورٹ نہیں ہوئے، حالانکہ کوئینزلینڈ کے کچھ علاقوں میں وہ مچھر موجود ہیں جو اس کا وائرس منتقل کر سکتے ہیں،
جو مسافر ایسے علاقوں کا سفر کرتے ہیں جہاں "چکن گنیا" پایا جاتا ہے، وہ اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ماہر وبائیات جیسن ریسگون
جنوبی چین کے کچھ حصوں میں COVID کی طرز کے اقدامات دوبارہ نافذ ہو رہے ہیں، کیونکہ ہزاروں افراد مچھروں سے پھیلنے والے "چکن گنیا" وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
چینی حکام نے گوانگڈونگ صوبے میں حالیہ ہفتوں میں اس وائرس کے سات ہزار سے زائد کیسز رپورٹ کیے ہیں، جو ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی 125 ملین سے زیادہ ہے۔
پین اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر وبائیات جیسن ریسگون اس بیماری کی منتقلی کے طریقے اور اس کے نئے علاقوں میں پھیلنے کی وجوہات بتاتے ہیں۔
جولائی کے آغاز میں، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ 119 ممالک کے 5.6 ارب لوگ اس خطرے میں ہیں۔
کیا آسٹریلیا خطرے میں ہے؟
ایسے مچھر جو "چکن گنیا" منتقل کر سکتے ہیں پہلے شمالی کوئینزلینڈ اور ٹوریز اسٹریٹ جزائر میں پائے گئے ہیں، لیکن ابھی تک آسٹریلیا میں مچھروں کی وجہ سے بیماری پھیلنے کی کوئی اطلاع نہیں ملی، Healthdirect کی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلین افراد کو سب سے زیادہ "چکن گنیا" وائرس کا خطرہ بیرون ملک سفر کے دوران ہوتا ہے۔
CDC نے بولویا، چین کے گوانگڈونگ صوبے، کینیا، میڈاگاسکر، ماریشیس، مایوٹ، ری یونین، صومالیہ اور سری لنکا میں وباؤں کے حوالے سے سفری صحت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ وائرس اب ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے 110 سے زائد ممالک میں شناخت ہو چکا ہے۔
"چکن گنیا" وائرس کے بارے میں ضروری معلومات:
"چکن گنیا" کیا ہے؟
"چکن گنیا" ایک وائرل بیماری ہے جو اسی نام کے وائرس (CHIKV) کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کی پہلی شناخت 1952 میں تنزانیہ میں ایک وبا کے دوران ہوئی، عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس کے بعد اسے مختلف ممالک میں، خاص طور پر افریقہ اور ایشیا میں دیکھا گیا۔اس بیماری کے پہلے شہری پھیلاؤ کی رپورٹس 1967 میں تھائی لینڈ اور 1970 کی دہائی میں بھارت سے آئیں۔ 2004 کے بعد CHIKV کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
وائرس کیسے پھیلتا ہے؟
لوگ"چکن گنیا" سے اس وقت متاثر ہوتے ہیں جب انہیں ایڈیز ایجپٹی مچھر کی مادہ کاٹ لے۔ مچھر کی یہی قسم ڈینگی، ییلو فیور اور زیکا وائرس بھی پھیلاتے ہیں۔
یہ عمل الٹا بھی ہو سکتا ہے، یعنی اگر مچھر کسی "چکن گنیا" سے متاثر شخص کو کاٹ لے تو مچھر بھی متاثر ہو جاتا ہے اور پھر چند دنوں بعد دوسرے افراد کو وائرس منتقل کر سکتا ہے۔تاہم، یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں براہِ راست منتقل نہیں ہوتا۔
علامات کیا ہیں؟
"چکن گنیا" کا نام تنزانیہ کی زبان کیماکونڈے کے لفظ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے "جو جھک جاتا ہے" — جو اس بیماری کی وجہ سے شدید جوڑوں کے درد میں مبتلا لوگوں کے جھکے ہوئے انداز کی وضاحت کرتا ہے۔
امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (CDC) کے مطابق، زیادہ تر متاثرہ افراد میں علامات مچھر کے کاٹنے کے تین سے سات دن بعد ظاہر ہوتی ہیں۔
بخار اور جوڑوں کا درد عام علامات ہیں۔ یہ درد اکثر شدید ہوتا ہے اور چند دنوں تک رہتا ہے، لیکن کبھی کبھار ہفتوں، مہینوں یا سالوں تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔
دیگر علامات میں سردرد، پٹھوں کا درد، جوڑوں کی سوجن یا خارش، متلی، اور تھکاوٹ شامل ہیں۔
کیا "چکن گنیا" وائرس مہلک ہے؟
"چکن گنیا" سے موت بہت کم ہوتی ہے، اور زیادہ تر مریض ایک یا دو ہفتوں میں بہتر ہو جاتے ہیں۔ تاہم، نوزائیدہ بچے، 65 سال سے زائد عمر کے افراد، اور جنہیں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، یا دل کی بیماری جیسی طبی حالتیں ہوں، ان میں بیماری شدید ہو سکتی ہے۔
کیا اس کا علاج موجود ہے؟
سادہ جواب یہ ہے کہ نہیں — "چکن گنیا" کا کوئی مخصوص علاج یا دوا نہیں ہے، لیکن آسٹریلیا کی Healthdirect سروس کے مطابق، جوڑوں کے درد کے لیے درد کم کرنے والی ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں۔آسٹریلیا میں اس وائرس کے لیے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔
Healthdirect کے مطابق، متاثرہ علاقوں سے بچاؤ کے لیے مچھروں کے کاٹنے سے بچاؤ کی تدابیر کرنا ضروری ہے، متاثرہ علاقوں میں جانے والوں کو جو احتیاط کرسکتے ہیں ان میں کھڑکیاں بند رکھنا ، مچھر دانی یا جال سے ڈھانپنا، ہلکے رنگ کے ڈھیلے کپڑے پہننا، بند جوتے پہننا، اور پانی جمع ہونے والی جگہوں سے بچنا جیسی تدابیر شامل ہیں۔

According to the local media, 5,000 larva-eating fish have been released into lakes, to eliminate mosquitoes at their source. Source: Getty / VCG
____