اولین انسان کی حیثیت سے چاند کی سطح پر قدم رکھنے کے بعد نیل آرم اسٹرانگ کے الفاظ تاریخ میں امر ہوچکے ہیں۔
ان کے اس مشن کے بعد سابقہ سویت یونین اور امریکا کے مابین خلائی مسابقت کی دوڑ چھڑ گئی تھی جس میں دوبارہ اپولو 17 کے مشن میں گین کیرنن اور ہیریسن شمٹ نے بھی 1972 میں چاند کو تسخیر کیا۔
اس کے بعد سے کسی دوسرے امریکی نے اس عمل کو نہیں دہرایا۔ لیکن ناسا اسے بدلنا چاہتا ہے۔ مرسیا ڈن ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے خلائی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
ہیوسٹن کی پیٹزبرگ ایسٹروبائیوٹک ٹیکنالوجی کی کوشش ہے کہ رواں ماہ کے دوران ایک فضائی پرواز کو ممکن بنایا جاسکے۔
اس کے لیے تیار کی گئی گاڑی، جسے پیریگرین کا نام دیا گیا ہے، کو United Launch Alliance Vulcan Centaurراکٹ سے منسلک کرکے فضا میں روانہ کیا جائے گا۔
اس مشن پر البتہ کچھ تحفظات اور خدشات وابستہ کیے گئے ہیں کیونکہ چاند پر جانے والے افراد اور سامان میں ایک مرحوم شخص کی بقایات اور ڈی این اے بھی شامل ہیں جسے وہاں چاند پر چھوڑا جائے گا۔
گزشتہ ماہ مقامی ناواجو قوم کے سربراہ بو نیگ گرین نے حکام کو لکھے گئے ایک خط میں واضح کیا کہ ان کی ثقافت کے مطابق چاند کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہے اور یہ عمل اس مقدس حیثیت کی پامالی کا سبب ہے۔ان خدشات کے باوجود ناسا نے مشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سائنسدانوں کو یقین ہے کہ چاند کا جنوبی حصہ جو ہمیشہ سائے میں رہتا ہے پانی کے وافر ذخائر سے مالا مال ہے۔
ناسا سے وابستہ ایمی آیچینباوم کے بقول یہ دو کمپنیاں ان نظریات کی حقیقیت کو معلوم کرنے کی کوشش کریں گی تاکہ چاند پر دائمی موجودگی کا بندوبست ممکن ہوسکے۔
خلائی ادارے نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ VIPER مشن کی گاڑی پر اپنے نام لکھوانے کے لیے درخواستیں جمع کرواسکتے ہیں۔ناسا کی ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر نکولا فوکس کے بقول یہ نام روور گاڑی پر چسپ کرکے چاند پر لے جائے جائیں گے۔
چاند پر واپس جانے کے لیے امریکا ہی بے تاب نہیں بلکہ جاپان بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔ جاپان کا خلائی مشن دو ہفتے میں پرواز بھرے گا۔