آسٹریلیا میں ہر برس ہزاروں لوگوں کی دل کی دھڑکن یکدم رک جانے کے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں بیشتر لوگوں کو قبل از وقت کوئی آثار یا وارننگ نہیں ملتی۔
ایسے واقعات میں ہر برس لگ بھر 26 ہزار افراد متاثر ہوتے ہیں اور 95 فیصد لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
سینٹ جونز ایمبولنس سروس آسٹریلیا کے اعداد و شمار کے مطابق اگر لوگوں میں سی پی آر کی مدد سے ایسے مریضوں کی جان بچانے سے متعلق آگہی ہو تو 75 فیصد لوگوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ خاص طور پر ایسے علاقوں میں آگہی مہم چلائی جائے جہاں یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہے۔
لیکن آخر یہ پتہ کیسے چلے گا کہ کہاں ضرورت ہے اور کہاں نہیں؟
موناش یونیورسٹی نے اس کا حل نکال لیا ہے۔
ان کی اس نئی تحقیق کی سینئر مصنفہ پروفیسر جینٹ برے کے بقول اس تحقیق میں لوکل گورنمنٹ ایریاز کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس تحقیق میں ایسے 60 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کی کل آبادی 1.17 ملین ہے اور بیشتر ریاست نیوساوتھ ویلز میں ہیں۔
پروفیسر برے کے بقول ان علاقوں میں چند نکات خاصے مشترک ہیں۔
اس تحقیق کے لیے سال 2017 سے سال 2019 کے اعداد و شمار کا مشاہدہ کیا گیا۔
پھر ان علاقوں کے لوگوں میں سی پی آر سے متعلق آگہی کی جانچ کی گئی اور نتائج واضح تھے۔
پروفیسر برے کے بقول لوگوں میں آگہی انتہائی ضروری ہے۔
امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر راشد بشیر کے بقول لوگوں کو سی پی آر سے متعلق آگہی کو سادہ اور آسان بنایا جاسکتا ہے۔
اس ٹریننگ میں D سے مراد ڈینجر یا خطرہ ہے۔ اسی طرح R سے مراد ریسپانس،S سے مراد سینڈ فار ہیلپ A سے مراد ایئروے B سے مراد بریتھنگ C سے مراد سی پی آر اور D سے مراد ڈیپبرلیٹر۔
یاد رہے کہ کارڈیئک اریسٹ اور دل کے دورے کے بیچ ایک فرق موجود ہے۔
موناش یونیورسٹی کی پروفیسر برے کے مطابق سی پی آر سے متعلق اب بھی لوگوں کو تربیت دینے سے متلعق خلاء موجود ہے۔
ڈاکٹر بشیر کے بقول اس مسئلے کے حل کے لیے بہت سے راستے موجود ہیں۔
بہت سے مقامات پر ٹریننگ کے باجود دیکھا گیا ہے کہ لوگ سی پی آر فراہم نہیں کرپاتے۔ پروفیسر برے کہتی ہیں کہ امید ہے کہ ان کی اس نئی تحقیق کے بعد بالخصوص بہت زیادہ متاثرہ علاقوں میں بہتر آگہی مہم چلائی جاسکے گی۔
تو کسی کی دل کی دھڑکنیں یکدم رک جانے کی صورت میں اس کی جان بچانے کے حوالے سے وقت خاصا اہم کہ جلد از جلد اسے سی پی آر فراہم کیا جائے۔
ایس بی ایس اردو پر آپ نے ہنا کوون کی یہ رپورٹ سنی شادی خان سیف کی زبانی