منصور شمس سابق امریکی فوجی ہیں اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے مسلم میرین ڈاٹ نامی گروپ کے بانی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نسلی تعصب کی طویل تاریخ ہے اور اس کے خاتمے کے لئے کوششیں ناکافی ہیں ۔
- پاکستانی نژاد امریکی اور سابق یو ایس مرین کے مطابق یہ مظاہرے صدر ٹرمپ کے خلاف کام کریں گے
- امریکی سیاست داں نسلی تعصب سے نمٹنے میں ناکام رہے
- نفرتوں کو ختم کرنے کیلئے اگر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو صورتحال انتہائی خراب ہو سکتی ہے
امریکہ میں حالیہ مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کو منصور شمس ان غیر منصفانہ واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں جس کے تسسل نے سیاہ فام افراد کو بے چین کر رکھا ہے۔
بد قسمتی سے امریکہ نے اتفاق رائے سے نسلی منافرت کے مسئلے سے درست طریقے سے نہیں نمٹا
منصور کراچی میں پیدا ہوئے، چھ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔ انہوں نے اپنی ایلمینٹری تعلیم وہیں حاصل کی اور دوسری ماسٹر ڈگری امریکہ کی جان ہافمین یونیورسٹی سے حاصل کی اور کئی سال امریکی فوج میں کام کیا۔
امریکی میرین منصور شمس کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے اقلیتوں کو ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرز پر پیش کیا جارہا ہے جو کہ درست نہیں۔
وہ بات چیت اور ڈائیلاگ کے ذریعے مسائیل کے حل پر یقین رکھتے ہیں اور اسی لئے انہوں نے انہوں نے مسلم مرین ڈاٹ ارگ نامی ویب سائٹ بنائی ساتھ ہی وہ کاؤنسل آن فارن ریلیشن سے بھی وابستہ ہیں۔ منصور شمس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والے امریکی اسلام کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھتے، ایسے لوگوں کے خیال میں شدت پسندی ہی اسلام کی اصل پہچان ہے، حالانہ حقیقت اس کے برعکس ہے

Ex US Marine Mansoor Shams with with Maryland’s Secretary of State, John Wobensmith. Source: MuslimMarine.org
حالیہ ہنگاموں میں وہ صدر ٹرمپ کے بیانات اور ٹوئیٹس کو حالات کی بہتری میں مددگار نہیں سمجھتے ۔ کیا صدر ٹرمپ ان ہنگاموں کو کسی طرح اپنی انتخابی مہم کی کامیابی کے لئے استعمال کرسکیں گے، اس سوال کے جواب میں منصور کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ نے یہ موقع کھودیا ہے کیونکہ انہوں نے اس مشکل وقت میں افہام و تفہیم کے بجائے دھمکیوں اور اشتعال انگیز بیانات سے صورتحال کو اور خراب کیا ہے۔
امریکی میرین منصور کے مطابق امریکہ میں اقلیتوں کیخلاف بڑھتی ہوئی نفرت کو ختم کرنے کیلئے اگر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو صورتحال انتہائی خراب ہو سکتی ہے جو کسی طور پر امریکہ اور یہاں رہنے والی مختلف قوموں کے مفاد میں نہیں۔

US President Donald Trump poses with a bible outside Church after delivering remarks in the Rose Garden at the White House in Washington, DC Source: ABACA
ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے منصور شمس کا کہنا تھا کہ نسل پرستی آج بھی امریکی معاشرے کا اُسی طرح سے حصہ ہے جیسے ماضی میں تھا اور یہ آج بھی مکمل طور پر معاشرے سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا ’لوگ ابھی بھی ماضی میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے اور یہاں ریاستوں، شہروں اور مقامی کونسلز تک میں ہر طرح کے خیالات رکھنے والے آزادانہ زندگی گزارتے ہیں۔ جہاں بہت سے باشعور لوگ ہیں وہیں معاشرے کے کچھ حصوں میں صدیوں سے قائم یہ سوچ موجود ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں۔ یہ احساس مکمل طور پر ہر طبقے میں ختم نہیں ہوا اور اسی لیے یہ واقعات ختم نہیں ہو رہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’موجودہ صدر جہاں ایک طرف کہتے ہیں وہ تعصب اور نسل پرستی کے خلاف ہیں دوسری جانب وہ ایسے بیانات دیتے ہیں جو لوگوں کو بھڑکاتے ہیں اور یہی دہرا معیار مسائل کی جڑ ہے۔ منصور کہتے ہیں کہ جب تک معاشرے کی دہرے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی نسلی پرستی ختم نہیں ہو گی اور بدقسمتی سے ان مسائل کا سامنا رہے گا۔

America often comes in the grip of protest and violence due to unresolved issue of racism (Former US Marine Mansoor Shams) Source: MuslimMarine.org
نسل پرستی کے خاتمے کے لیے ہر سطح پر لوگوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ نظام میں موجودہ سوچ کو بدلا جا سکے
’ماضی میں ایسے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں جن میں ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی گئی جنھوں نے سیاہ فام افراد پر بے جا تشدد کیا اور بہت سے ایسے افراد پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے۔ نسل پرستی کے واقعات سوشل میڈیا کی وجہ سے ہماری نظر میں پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں اور چھلےکچھ عرصے میں ان کی مختلف مثالیں سامنے آئی ہیں ۔ ماضی میں بھی اِن واقعات پر امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل کے افراد نے انصاف نہ ملنے پر مظاہرے کیے اورغم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بلیک کا استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے اور ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ بھی ایک طرح مہم بن گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کے لئے بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کی راہ دکھاتے رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افریقی امریکیوں اور دیگر مسلمانوں کے بارے میں امریکہ میں الگ الگ رائے رکھی جاتی ہے۔