پی سی بی کی جانب سے نئے اسٹرکچر کا مقصد "مقدار کی بجائےمعیار کو ترجیح" دینا ہے۔ نئے سیزن میں بین القوامی مقابلوں میں استعمال کی جانے والی کوکابورا گیند کا استعمال کیا جائے گا۔
نئے اسٹرکچر میں پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کو چھے اسوسئیشنز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ناردرن، سینٹرل پنجاب، سدرن پنجاب، سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان شامل ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا کہنا ہے کہ بورڈ نے ایسا اسٹرکچر بنایا ہے جہاں ایک کلب کرکٹر کے لیےصوبائی ٹیم میں شمولیت کا واضح راستہ موجود ہے۔
"پاکستان کرکٹ بورڈ ٹیسٹ کرکٹ کی اہمیت پریقین رکھتا ہے۔کرکٹ کے روایتی فارمیٹ میں قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے۔امید ہے اس نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر سے نوجوان کھلاڑیوں کو پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے گا۔
یہ اسٹرکچر ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے لیے بہترین ٹیم کے انتخاب میں مدد دے گا۔
چیف ایگزیکٹو پی سی بی وسیم خان کا کہنا ہے کہ نئے اسٹرکچر کو بنانے کا مقصد پاکستان میں کرکٹ کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔
"مجموعی طور پر 102 کھلاڑی، کوچز، فزیوز، سلیکٹرز اور دیگر اسٹاف ممبران اس ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر میں شرکت کریں گے۔ نئے ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر میں کھلاڑیوں کی مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
"ہر کرکٹ ایسوسی ایشن 32 کھلاڑیوں کو سالانہ ڈومیسٹک کنٹریکٹ دے گی۔ یہ کھلاڑی سیزن میں ایسوسی ایشن کے لیے فرسٹ کلاس، نان فرسٹ کلاس، لسٹ اے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹس میں شرکت کریں گے۔ یہ کھلاڑی پی سی بی کے سنٹرل کنٹریکٹ کاحصہ نہیں ہوں گے۔
"ان 32 سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کے علاوہ بھی کرکٹ ایسوسی ایشن کسی اورکھلاڑی کو فی میچ معاوضہ دے کرٹیم میں شامل کرسکتی ہے۔ ڈومیسٹک کنٹریکٹ رکھنے والے ہر کھلاڑی کو ماہانہ 20 ہزار روپے معاوضہ ملے گا۔"
لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کا کہنا ہے کہ نئے اسٹرکچر کا سب سے بڑا نقصان ڈیپارٹمنٹ کرکٹ اور موجودہ کھلاڑیوں کو ہوگا۔

سلمان بٹ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان (AP Photo/Lefteris Pitarakis) Source: AP
"ہم ایک فلاحی ریاست نہیں ہیں۔ ہمارا کوئی فال بیک پلان نہیں ہے۔ اگر ڈیپارٹمنٹ ختم ہوجاتے ہیں تو کھلاڑیوں کی نوکریاں بھی ختم ہوجائیںگی، پھر وہ کیا کریں گے۔
صرف بانوے کرکٹرز ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلیں گے۔ جو باقی سات سو کرکٹرز جن کی نوکریاں چلی جائیں گی وہ کیا کریں گے۔
اگر وہ کلب کرکٹ کھیلتے ہیں تو وہ اپنے خاندان کا خیال کیسے رکھیں گے، اس لئے کہ کلب کرکٹ میں تو پیسے ہی نہیں ہیں۔
یہ کھلاڑی پارٹ ٹائم پروفیشنل بن جائیں گے کیونکہ ان کو اپنا گھر چلانے کے لئے کوئی اور کام کرنا پڑے گا۔
اور جب آپ کوئی اور کام کریں گے تو آپ کا ذہن اور طاقت دونوں تقسیم ہوجائیں گے تو پھر جو کرکٹ کا معیار آپ چاہتے ہیں وہ آپ کو نہیں ملے گا۔"
چند ماہ پہلے سلمان بٹ نے کہا تھا کہ پاکستان آسٹریلیا کی طرز پر اپنا ڈومیسٹک اسٹرکچر تبدیل نہ کرے۔
"آسٹریلیا میں صرف ایک ہی کھیل نہیں جس میں لوگوں کی دلچسپی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک ہی کھیل ہے کرکٹ، جسے ہر شخص کھیلنا چاہتا ہے، شوق سے۔ آسٹریلیا میں آپ کو معلوم ہے کہ صرف کرکٹ ہی گیم نہیں جسے کھیلا جاتا ہے، فٹبال اور فُٹی کے بعد ہی لوگ کرکٹ کی طرف آتے ہیں۔
"[دوسری جانب] آسٹریلیا کی زیادہ آبادی نہیں ہے، اسٹرکچر بہت اچھا ہے اور ایک فلاحی ریاست بھی ہے۔ اگر آپ ایک کھلاڑی نہیں بھی بن سکتے تو حکومت آپ کی دیکھ بھال کرتی ہے جبکہ کام کرنے کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔"