اس عارضی مویشی منڈی میں اندورن سندھ اور بلوچستان سے ساڑھے چار ہزار سے زائد اونٹ بھی فروخت کیلیے پہنچا دیئے گئے ہیں۔ آیئے آپ کو بھی اس منڈی کی سیر کرواتے ہیں جہاں حدِ نگاہ تک خوبصورت اور بھاری جسامت والے جانور موجود ہیں۔
مویشی منڈی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس منڈی کی پہچان بیلوں کا وی آئی پی بلاک ہے۔ جس میں ملک بھر سے لائے گئے بھاری بھر کم بیل خریداروں کے انتظار میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس بلاک میں ساہیوال، آسٹریلوی اور سبی نسل کے قد آور بیلوں سمیت دیگر کئی نسلوں کے بیل موجود ہیں، ان بیلوں کی قیمت 4 لاکھ سے شروع ہو کر 60 لاکھ تک جاتی ہے۔
آگے بڑھیں تو منڈی میں جہاں سب سے زیادہ رش نظر آتا ہے وہ جنرل بلاکس کا ایریا ہے، جس میں نسبتا کم قیمت کے بیل موجود ہیں جن کی قیمت 1 لاکھ سے 4 لاکھ تک ہے تاہم اس بلاک میں موجود نہ تو بیوپاری خوش دکھائی دیتا نہ ہی جانور کی خریداری کیلیے شہر کے باہر اس منڈی کا رُخ کرنے والا خریدار، دونوں ہی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔

بیوپاریوں کے مطابق منڈی میں ہر چیز خریدنی پڑتی ہے، یہاں سہولیات کم اورفیسوں کی مد میں رقم زیادہ لی جاتی ہے جس کے باعث جانوروں کی قیمت بڑھانے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف خریداری کے لے آنے والے شہری کہتے ہیں منڈی میں اس بار جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بیوپاریوں نے قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کردیا ہے اگر قیمتیں برقرار رہیں تو قربانی کرنا مشکل ہوجائے گا، کچھ شہریوں نے شکوہ کیا کہ وزن کےحساب سے بھی جانور خریدیں تو انہتائی مہنگے داموں مل رہا ہے۔

بیل اور بکرا منڈی سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اونٹ منڈی بھی لگائی گئی ہے اس بلاک میں تھری، لاڑی اور سندھی نسل کے ساڑھے چار ہزار سے زائد اونٹ فروخت کیلیے دستیاب ہیں ، اونٹوں کی جہاں تک قیمت کی بات ہے تو وہ 2 لاکھ سے شروع کر 15 لاکھ روپے تک جاتی ہے، اونٹ کی نسل اور اس کی جسامت بھی اس کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

مویشی منڈی کے ترجمان نوید بیگ کے مطابق 1 لاکھ سے زائد بیل، بکرے ، دنبے اور اونٹ مویشی منڈی لائے گئے ہیں ۔ بیورپاریوں کی سہولت کیلیے منڈی انتظامیہ نے 16 جنرل اور 4 وی آئی پی بلاکس قائم کیے ہیں، نوید بیگ کے مطابق شہر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مویشی منڈی کی سیکورٹی کے فل پروف اقدامات کیے گئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ شہریوں اور ملک بھر سے آئے بیوپاریوں کی سہولت کیلیے منڈی کےاندر ہی اے ٹی ایم مشینیں لگا دی گئیں ہیں۔
(رپورٹ: احسان خان)