41 سالہ عدنان سید نے 20 سال میں پہلی بار نسبتاً آزادی کا اس وقت مزہ چکھا جب پیر کی شب مسٹر سید کو سرکٹ کورٹ کی جج میلیسا فن نے ان پر عائد قتل کی سزا کو ختم کرتے ہوئے جیل سے رہا تو کیا مگر "صاف اور انصاف کے مفاد " کو مدنظر رکھتے ہوئے گھر پر اس وقت تک نظر بند رکھنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ انکے کیس کے بارے میں پراسیکیوٹرز اپنا حتمی فیصلہ نہ سنا دیں ۔
یہ فیصلہ بالٹیمور اسٹیٹ اٹارنی کے دفتر کی ایک سال طویل تفتیش کے بعد کیا گیا ہے۔
ریاست کے اٹارنی مارلن موسبی ان نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
عدنان سید پر 17 سالہ ہی من لی کے قتل کے الزام میں دو بار مقدمہ چلایا گیا۔ 2000 میں ایک جیوری نے اسے پہلے سے سوچے سمجھے قتل، اغوا، ڈکیتی اور جھوٹی قید کا مجرم قرار دیا۔ اور جج نے اسے عمر قید کے علاوہ 30 سال قید کی سزا سنائی۔ ہماری دوبارہ تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ اٹارنی جنرل کے دفتر میں استغاثہ اور اس کے بعد کے پراسیکیوٹرز متبادل مشتبہ افراد کے بارے میں متعلقہ معلومات کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے، جن میں سے ایک نے مقتول کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی اور اسکے پاس مقتولہ کو قتل کرنے کا مقصد بھی تھا، اسکے علاہ دونوں مشتبہ افراد خواتین پر تشدد کا ماضی بھی رکھتے تھے۔ ہماری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں مشتبہ افراد انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اس قتل میں ملوث ہو سکتے ہیں ۔
مسٹر سید کی والدہ نے عدالت کے باہر حامیوں کو کا شکریہ ادا کیا، جب کہ ان کے وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
اب ہم جانتے وہ جانتے ہیں جو عدنان اور اس کے گھر والے ہمیشہ سے جانتے تھے یہی کہ عدنان کا ٹرائل ہمیشہ سے ہی انتہائی اور اشتعال انگیز حد تک غیر منصفانہ تھا۔ اگر اس ثبوت کو ظاہر کیا جاتا تو شاید عدنان اپنی ہائی اسکول گریجویشن، یا اس کے پری میڈ پلانز، 23 سال کی سالگرہ، تعطیلات، خاندانی اجتماعات، اجتماعی تقریبات، خوشی کے روزمرہ کے لمحات سے محروم نہ ہوتا۔
سیریل پوڈ کاسٹ کے پہلے سیزن نے اس کیس پر دنیا بھر کی توجہ مبذول کروائی اور مسٹر سید کے جرم پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
اس پوڈکاسٹ کو اب تک 300 ملین سے زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے – جس سے یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ سنے جانے والے پوڈ کاسٹوں میں شامل ہوگیا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ یہ سزا ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسٹر سید بے قصور ہیں، بلکہ ایک نئے مقدمے کی سماعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اب استغاثہ کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے 30 دن کا وقت دیا گیا ہے کہ آیا وہ نئے مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھائیں گے یا الزامات کو رد کر کے مسٹر سید کو رہا کرینگے۔
فی الحال ہم ڈی این اے کے تجزیے کا انتظار کر رہے ہیں اور اس عمل کو تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈی این اے نتائج کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا کہ عدنان کے کیس کو خارج کیا جائے یا نہیں اور کیا ان پر نیا کیس چلانا چاہیے یا نہیں۔ ان سب سوالات کی تصدیق پراسیکیوشن کریں گی۔ ڈی این اے کے نتائج کچھ بھی ہوں پھر بھی عدنان منصفانہ ٹرائل کا حقدار بناتےہیں۔
اس ساری کشمکش کے بیچ میں مقتولہ ہی من لی کا خاندان پھنس کر رہ گیا ہے۔ انکے لواحقین کے وکیل نے قانونی عمل کے پیچیدہ اور غیرواضح ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
میرے کلائنٹس صرف معلومات چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سچ سامنے آئے۔ اگر سچ یہ ہے کہ کسی اور نے ان کی بہن، بیٹی کو مارا ہے، تو وہ اس جواب کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ جبکہ حقیقت میں عدالت اور ریاست کے اٹارنی دفتروں نے انہیں قانونی عمل سے باہر کردیا گیا ہے۔ اور یہ ٖصرف ناقابل معافی عمل ہے بلکہ میری لینڈ کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔ جسکے باعث میرے مؤکل اپیل کے سلسلے میں اپنے اختیارات تلاش کر رہے ہیں۔