مسلم کمیونیٹی میلبورن کے اسکول کلسٹر سے خوفزدہ کیوں؟

Covid test centre Melbourne

Melbourne'nun kuzeyinde çok sayıda geçici test merkezleri hizmet veriyor. Source: AAP

کووڈ ۱۹ کے کئی مثبت کیسیسز کے باعث سیکڑوں افراد میلبورن کے شمال میں خود ساختہ تنہائی اختیار کررہے ہیں جس میں دو اسکول کے طلبا اور ان کے متاثر خاندان بھی شامل ہیں ۔احتیاطی تدابیر کے طور پر لگ بھگ 500 افراد اپنے گھروں میں خود کو الگ تھلگ کر رہے ہیں۔کچھ خاندانوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا جب کہ بہت سے والدین اور کمیونوٹی ممبران کو خدشہ ہے کہ اس موجودہ کلسٹر کو کہیں مسلمانوں سے جوڑ کر ان کو نشانہ نہ بنایا جائے۔


میلبورن کے شمالی سبسرب میں  کرونا وائیرس کےکلسٹرکے باعث کئی سو افراد گھروں میں نظر بند ہوگئے ہیں۔ پریمیر نے کرونا کے باعث لگی موجودہ پابندیوں میں نرمی کو موخر کر دیا ہے جس پر کاروباری حلقوں اور وفاقی حکومت نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ 

  • حکومت کا کہنا ہے کہ دوسری زبانوں میں ترجمہ شدہ معلومات کی کمی کا مسئلہ نہیں ہے
  • کچھ لوگوں کا خیال ہے کی معلومات کو درست طور پر نہیں پہنچایا جارہا
  • کئ مسلم افراد کو خطرہ ہے کہ اگر یہ کلسٹر پھیلا تو مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہو سکتا ہے 
بچوں کے والدین نے ایس بی ایس کو بتایا کہ اسکول کی جانب سے فوری طور پر معلومات فراہم کی گئی اور تمام والدین کو صورتحال سے ٓگاہ رکھا جا رہا ہے جبکہ محکمہ صحت کی جانب سے متاثرہ افراد سے  ربط میں آنے والے تمام خاندانوں کو براہ راست رابطہ کر کے قرنطینیہ اور خود ساختہ تنہائی کے بارے میں ہدایات دی جا رہی ہیں۔ 

وکٹورین پریمیئر ڈینیئل اینڈریوز نے کہا کہ حکام نے ہر نئے معاملے سے سبق سیکھنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا کہ اسلامک اسکول کےاہل خانہ کو طالب علم کو الگ الگ رکھنے کی ضرورت سے واضح طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

 مگر کثیر الثقافتی کمیونٹیز کے کرونا وائرس کے کئی سو مریضوں کا علاج کرنے والی جی پی کیتھرین اور نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق محکمہ صحت نے کسی بھی مائیگرینٹ مریض یا اس کے گھر والوں کو تحریری یا زبانی طور پر ان کی اپنی زبان میں معلومات فراہم نہیں کی۔
وکٹوریہ میں کانٹیکٹ ٹریسنگ پروگرام کے سربراہ جیرون ویمر کا کہنا ہے کہ صحت کے اہم مشوروں پر بات چیت کرنے کے لئے اہلکار برادری اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

وکٹوریہ کے ڈپٹی چیف ہیلتھ آفیسر ایلن چینگ نے ایس بی ایس کو بتایا کہ طالبعلم کے گھر میں متعدد افراد موجود تھے جن کا مثبت ٹیسٹ آیا تھا اور وہ دو ہفتوں میں صحت یاب ہوگئے تھے۔ اورساتھ ہی گھر کے کچھ بیمار افراد تنہائی میں رہنے کی مدت پوری کر چکے تھے لیکن متاثرہ طالب علم کو الگ تھلگ رکھنے کی ضرورت تھی مگر غلط فہمی کے باعث یہ طالب علم اسکول چلا گیا اور دو دن بعد اسکا مثبت ٹسٹ آیا۔
وکٹوریہ کے ڈپٹی چیف ہیلتھ آفیسر ایلن چینگ نے کہا کہ "میرے خیال میں یہ بات قابل فہم ہے کہ جب کنبے میں ایک سے زیادہ افراد موجود ہوں اور کچھ کو تنہائی میں رہنا ہو اور دوسروں کو نہ رہنا ہو تو وہاں غلط فہمی اور ابہام پیدا ہو سکتا ہے"
اس اسلامی اسکول میں پڑھنے والے دو طالب علموں کی والدہ سنبل عدنان کا کہنا تھا کہ ان کا تیرہ سالہ چھوٹا بیٹا ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے اور وہ اسکول جا رہا تھا۔ ان کے مطابق اسکول نے مسلسل ان سے رابطہ رکھا ہوا ہے اور تواتر سے فون پر پیغامات آرہے ہیں۔ ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہ محکمہ صحت بڑی مستعدی سے کام کر رہا ہے مگر اپنی زبان میں معلومات کی اہمیت ایسے وقت میں اوربھی بڑھ جاتی ہے۔ مسز سنبل نے امید ظاہر کی کہ اسلامک اسکول کے اس کلسٹر کو مسلمانوں سے نتھی کر کے کمیونیٹی کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ ان کے مطابق یہ واقعہ کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے اس کے لئے پوری مسلم کمیونیٹی کو الزام دینا درست نہیں۔
Image
میلبورن کی سماجی تنظیم کے سربراہ عمر بن امین نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ انہوں نےاسکول کے بچوں کے خاندانوں سے رابطے کی کوشش کی مگر خاندان سخت  شرمندگی اور خوف کی وجہ سے کسی طرح بات نہیں کر نا چاہ رہے ۔عمرکا کہنا تھا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ میلبو رن کے کئی مسلم سکول اور مراکز كووڈ 19 کے کیسیز کے باعث کی خبروں  میں رہے ھیں ۔ اسی وجہ سے کمونیٹی ڈری ہوئی ہے کہ۔  خد ا نخوستہ اگر  اس مرتبہ یہ کلسٹر بڑھتا ہے تو ہر طرف سے انگلیاں  مسلم كمیو نٹی  پر  اٹھنے کے امكانات ہیں۔
زنیرہ ذیشان کا بیٹا اسی اسکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم ہے اور ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کیں اور تمام گھر والوں نے بھی اطلاع ملتے ہی کووڈ ٹیسٹ کروائے۔ زنیرہ بھی اپنی زبان میں پیغام پہنچانے کو اہم قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامو فوبیہ کے اس دور میں وبا کے پھیلاؤ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا آسان ہو سکتا ہے مگر در حقیقت اس واقعے کا تعلق کسی ایک کمیونٹی یا گروہ سے نہیں ہے۔

ایسٹ پریسٹن اسلامک کالج  کے پرنسپل ایکریم اوزورک کے مطابق متاثرہ طالب علم کو تنہائی میں رکھنے کی واضع ہدایت موجود نہیں تھی.مسٹر ایکریم نے والدین کے طرز عمل کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین نے صحیح کام کیا مگر کہیں غلط فہمی ضرور ہوئی تھی۔


اگر آپ آسٹریلیا آنے کے ۱4 دنوں کے دوران یا کسی بھی کووِڈ-۱۹ کے متاثرہ شخص سے ملنے کے ۱۴ دنوں کے دوران اگر آپ میں علامات ظاہر ہو جائیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں . اپنے ڈاکٹر کو کال کر کے وقت لیں یا نیشنل کرونا وائرس ہیلتھ انفارمیشن ہاٹ لائن   1800020080 پر رابطہ کریں- ہسپتال یا کلینک اپنی علامات بتائے بغیر مت جائیں  

جانے سے پہلے ہسپتال یا کلینک فون کر کے اپنی سفری تفصیلات سے آگاہ کریں یا اگر آپ کسی کووِڈ-۱۹ کے کسی متاثرہ شخص سے ملے ہیں- آپ اس وقت تک اپنے گھر، ہوٹل یا ہیلتھ کلینک میں تنہائی میں رہیں جب تک حکام آپ کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں جانے کا نہیں کہ دیتے-

اگر آپ کسی سے اپنی علامات کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو قومی کرونا وائرس ہیلپ لائن پر مشورہ کریں

مزید معلومات کے لئے ایس بی ایس اردو کے کووڈ ۱۹ کے پیج پر جائیے۔-  


شئیر
Follow SBS Urdu

Download our apps
SBS Audio
SBS On Demand

Listen to our podcasts
Independent news and stories connecting you to life in Australia and Urdu-speaking Australians.
Once you taste the flavours from Pakistan, you'll be longing for the cuisine.
Get the latest with our exclusive in-language podcasts on your favourite podcast apps.

Watch on SBS
Urdu News

Urdu News

Watch in onDemand