مہندی لگانا برصغیر ہی نہیں عرب ممالک کی بھی ایک خاص روایت ہے ۔ یہ رواج اب کچھ جدید انداز کے ساتھ آسٹریلیا کی مقامی آبادی میں بی مقبولیت اختیار کر رہا ہے ۔"حنا ٹیٹو آرٹ "آسٹریلین افراد کی جانب سے نہ صرف پسند کیا جا رہا ہے ، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ شہرت بھی حاصل کر رہا ہے ۔
تہوار یا خوشی کے موقع پر مہندی لگانا بر صغیر پاک و ہند اور عرب ممالک کا قدیم رواج ہے ۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ اس رواج نے جدیدیت کے رنگ بھی اپنائے ہیں ۔ نت نئے حسین اور دیدہ زیب ڈیزائن اور پھول بوٹوں کے نقش ہاتھوں اور پیروں پر بنوانا عید ، دیوالی اور شب برات جیسے موقع پر تو خواتین کی خواہش ہوتی ہی ہے لیکن دیگر خاص موقع جیسا کہ شادی بیاہ یا سالگرہوں پر رنگین ، خوشبودار نقوش سے ہاتھوں اور پیروں کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا بھی خواتین کے لئے ایک اہم کا کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مہندی کی یہ روایت اب آسٹریلیا سمیت دیگر مغربی ممالک میں بھی مقام بنا رہی ہے۔ پاکستان بھارت یا عرب ممالک سے ہجرت کرنے والی تاریک وطن خواتین تو اپنی اس خوبصورت ثقافت سے جڑی ہوئی ہیں ۔ لیکن اب آسٹریلیا کی مقامی آبادی بھی "حنا ٹیٹو آرٹ بنوانے میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ اس سلسلے میں میلبرن کی رہائشی عائشہ بانو جو خود ایک ماہر حنا آرٹسٹ ہیں کہتی ہیں کہ پاکستانی خواتین کے ساتھ اب آسٹریلیا کے مقامی افراد بھی مہندی لگوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مہندی لگانا ٹیٹو کی نسبت آسان ہے اس لئے اب آسٹریلینز مہندی لگوانے کی جانب زیادہ راغب ہیں ۔
عائشہ نے بتاہا کہ ان کے صارفین کو مہندی اور ٹیٹو میں فرق نظر آتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مہندی اور ٹیٹو کے درمیان جو واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ مہندی لگوانے میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی ۔ اس لئے ان کے صارفین کا کہنا ہے کہ یہ نسبتا زیادہ آسان ہے ۔ دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مصنوعی اجزاء سے پاک مہندی لگاتی ہیں جو جلد کے لئے نقصان دہ نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مہندی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مہندی کے نقش ایک خاص دورانیے کے بعد مٹ جاتے ہیں ، جس کے بعد مہندی لگوانے والا اپنی پسند کا کوئی دوسرا ڈیزائن لگا سکتا ہے ۔ دوسری طرف ٹیٹو بنوانا نہ صرف ایک تکیف دہ عمل ہے بلکہ اس کو بار بار تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔
عائشہ بانو کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی مقامی آبادی اور برصغیر پاک و ہند کی خواتین میں مہندی کے ڈیزائینز اور اسٹائلز کی پسند کے حوالے سے واضح فرق موجود ہے ۔
جو مقامی آسٹریلینز ہیں وہ کھلے ڈیزائن پسند کرتے ہیں جن میں ہاتھ کی جلد نظر آئے یا پھر اشکال اور نام کے ٹیٹوز
جبکہ عائشہ کا کہنا ہے کہ بصغیر کی خواتین اتنے بھرے ہوئے ڈیزائینز پسند کرتی ہیں جس سے ہاتھ مکمل طور پر چھپ جائے ۔ اس کے علاوہ انگلیوں کے پورے بھرنے کا رواج بھی پاک و ہند کی خواتین میں ہے ۔
رابعہ ڈار بھی ایک حنا آرٹسٹ ہیں ، جن کا کہنا ہے کہ در حقیقت آسٹریلیا کے افراد فن کے دلدادہ ہیں اور فن کو مروغ دینے میں مدد دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کی جانب سے ملنے والی پذیرائی تھی جس کے باعث انہوں نے اپنے فن کو آگے بڑھایا اور گھر سے مہندی لگانے کا کام شروع کیا ۔ رابعہ کہتی ہیں آسٹریلین لڑکیوں کے لئے مہندی لگانے کا طریقہ بھی پہت دلچسپی کا حامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے آسٹریلین کے مقامی صارفین میں سے کچھ افراد ان سے بازو پر ٹیٹوز کی طرح مہندی کے ڈیزائن بنواتے ہیں ۔