آسٹریلیا میں بچوں کو کہانیاں سنا کر زبان اور ثقافت سے جوڑنا تعلیم کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں مقامی کتب خانوں میں مختلف کہانیاں سنانے کے پروگرامز جاری ہیں ۔ عظمیٰ اخلاق کا کہنا ہے کہ میلبرن میں اس طرح اردو زبان میں کہانیاں سنانے کی بنیاد لوکل کونسلز کے ساتھ انہوں نے رکھی ۔
مجھے لگتا ہے لائبریرز سب سے زیادہ "کمیونٹی سیف" جگہیں ہیں ۔ یہ الفاظ ہیں عظمیٰ اخلاق کے جو میلبرن کی رہائشی ہیں اورگذشتہ چھ سالوں سے مقامی کتب خانوں میں بچوں کو اردو کہانیاں سناتی ہیں ۔
کہانیاں سنا کر بچوں کی لسانی اہلیت بڑھانا آسٹریلیا کی تعلیمی ثقافت کا ایک جز ہے ۔آسٹریلیا کے مختلف کتب خانوں میں ایسے پروگرامز بھی چلائے جارہے ہیں جن میں کثیر الثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچوں کو ان کی آبائی زبان میں کہانیاں سنائی جاتی ہیں ۔ اس سرگرمی کا مقصد بچوں کو ان کے والدین کی زبان سے روشناس کروانا ہے ۔ عظمیٰ اخلاق سال 2015 سے اس پروگرام کے تحت لوکل کونسل لائبریریز میں اردو کہانیاں بچوں کو سنا رہی ہیں ۔
عظمیٰ اخلاق کا کہنا ہے کہ " اردو اسٹوری ٹیلنگ " کی بنیادی وجہ اپنے بچوں میں اردو سیکھنے کا شوق بیدار کرنا ہے ۔ اس سوال پر کہ انہوں نے مقامی لائبریرز
کا انتخاب کیوں کیا عظمیٰ کا کہنا تھا کہ کتب خانے انہیں کمیونٹی کے لئے محفوظ ترین مقام محسوس ہوتے ہیں ۔
عظمیٰ کہتی ہیں کہ ابتدا میں جب انہوں نے اردو کہانیاں سنانے کا آغاز کیا تو والدین اور کمیونٹی کا رد عمل ملا جلا تھا ۔ کچھ لوگوں کو اپنے بچوں کو اردو سکھانے میں بہت دلچسپی تھی جبکہ کچھ کے نزدیک آسٹریلیا میں رہتے ہوئے اردو سیکھنا بے معنی تھا ۔عظمیٰ کا اپنا موقف اس سلسلے میں یہ تھا کہ یہاں رہ کر ہر بچہ خود ہی انگریزی زبان سیکھ جائے گا لیکن اپنی ثقافت سے منسلک رہنے کے لئے اپنی زبان سیکھنا بہت ضروری ہے ۔
مچھلی کے بچے کو پانی میں رہ کر تیرنا کوئی نہیں سیکھاتا۔
عظمیٰ نے اپنے سفر کی ابتدا کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ سال 2005 میں آسٹریلیا آئیں تو لوکل لائبریریز ان کے لئے دوسرا گھر ثابت ہوئیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ مختلف کتب خانوں میں دیگر ایشیائی زبانوں جیسا کہ ہندی ، پنجابی یا سنہالی زبان میں بچوں کو کہانیاں سنانے کے پروگرامز موجود تھے ۔ یہ دیکھتے ہوئے انہوں نے اردو زبان میں کہانیاں سنانے کے لئے میلبرن کی ہیوم کونسل میں دستاویز جمع کروا دئیے ۔ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ مقامی کونسل کا رد عمل بہت ہی حوصلہ افزاء اور مثبت تھا ۔
عظمیٰ نے بتایا کہ کہ یوں تو یہ اردو اسٹوری ٹائم وہ کہیں بھی شروع کر سکتی تھیں لیکن مقامی لائبریرز کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کا مقصد حکومتی سطح پر اردو زبان کو متعارف کروا کر اردو کی پہچان بنانا تھا۔ عظمیٰ نے کہا کہ الگ شناخت ہونے کے باوجود اردو کو اکثر ہندی یا پنجابی جیسا سمجھا جاتا ہے اور ثقافتی اقدار میں کافی مماثلت کے باعث پاکستان کو بھارت جیسا ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان اور اردو اپنی الگ منفرد شناخت رکھتے ہیں جن کی پہچان کروانا ضروری ہے ۔
اردو زبان میں کہانیاں سننے کے حوالے سے بچوں کا کیا ردعمل ہے اور بچے اردو زبان میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں اس حوالے سے عظمیٰ کہتی ہیں بچوں کے لئے لائبریری میں گزارا گیا وقت بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ اردو میں کہانیاں سننا بچوں کے لئے ایک تفریح سے بھرپور سرگرمی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بچے خود اپنے والدین کو لے کر آتے ہیں تاکہ اردو کہانیاں سن سکیں ۔
عظمیٰ اخلاق نے بتایا کہ وہ اب تک ہیوم کونسل اور مور لینڈ کونسل کے تحت اردو میں کہانیاں سنانے کے پروگرامز انجام دے چکی ہیں تاہم اب گذشتہ سال سے کرونا وائرس کی وبا کے بعد دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان میں اسٹوری ٹیلنگ کا سلسلہ بھی تعطل کا شکار ہے ۔ تاہم عظمیٰ نے امید ظاہر کی کہ جیسے ہی حالات میں بہتری آئی وہ اردو زبان میں کہانیاں سنانے کا سلسلہ مقامی کتب خانوں میں ایک مرتبہ پھر شروع کرنا چاہیں گی ۔