4 اپریل 1949 میں اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومن اور ان کے 11 اتحادی ممالک نے نیٹو ملٹری الائنس کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئی اور ابھرتی سرد جنگ کے پیش نظر نیٹو کا قیام ایک مشترک دفاعی اتحاد کے طور پر سامنے آیا تھا۔ اب، خاص طور پر روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیش نظر، نیٹو نے حال ہی میں دو نئے ممالک، فن لینڈ اور سویڈن کو رکنیت دی ہے۔
سویڈن کے وزیر اعظم اولف کریسٹرسن نے نیٹو کی رکنیت کو اپنے ملک کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔
سویڈن کی نیٹو میں شمولیت اس لیے بھی خاصی اہم ہے کیونکہ تاریخی طور پر یہ ملک سال 1814 سے اب تک کسی بھی جنگ میں شامل نہیں ہوا ہے۔
سال 1991 میں سابقہ سوویت یونین کے منحل ہوجانے کے بعد نیٹو نے کئی مشرقی یورپی ممالک کو اپنے اتحاد میں شامل کیا تھا۔ ان دو ممالک کی نیٹو میں شمولیت کو روسی صدر ولایمیر پوتن کے لیے ایک دھچکا تصور کیا جاتا ہے جو نیٹو کے وسعت اور اس کے ارکان میں اضافے کے مخالف ہیں۔
اس ضمن میں امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں کہا کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب کو متنبہ کیا تھا کہ یوکرائن پر حملے کی صورت میں نیٹو مزید مضبوط ہوجائے گا۔
نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل روب باور کے بقول فی الحال ایسے کوئی علائم نہیں کہ روس کسی نیٹو رکن پر حملہ کرے۔
مبصرین کے بقول نیٹو کو دیگر بھی کئی مشکلات درپیش ہیں جیساکہ روسی جارحیت کے مقابلے میں اپنی سرحدوں کی حفاظت جب سالوں تک یہ اتحاد افغانستان اور بالکان میں مصروف رہا۔
سینٹر فار امیریکن پراگریس سے وابستہ تجزیہ نگار رابرٹ بینسن کے بقول نیٹو کی موجودگی کئی حوالوں سے امن اور استحکام کی ضامن رہی ہے۔