یہ سب دنیاں کی مختلف حکومتوں کو بھی سوچنے پر مجبورکر رہا ہے کہ AI سے وابستہ امور کے لیے فنڈنگ اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی کیسے کی جائے.
آسٹریلیا اس معاملے میں بالخصوص مشکلات سے دوچار ہے جہاں ایک تازہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ ملک اس محاذ پر دوسروں سے خاصا پیچھے ہے.
نازیہ احمد ایک مشاورتی ادارے سوشل آوٹکمز لیب کی سی ای او ہیں جو AI کو بہتر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہیں. ان کے بقول ماضی میں مشکلات کا سامنا کرنے والے نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے اور A-I اس میں مدد کر سکتی ہے۔
"تواگر آپ کو کسی صدمے کا سامنا ہے، اور جب آپ کچہ سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور آپ کی خواندگی کی سطح کم ہوتی ہے تو آپ جھنجھلاجاتے ہیں. ایسے میں AI کا استعمال یہ جاننے کے لیے کیا جا سکتا ہے کہ کچھ معلومات آپ کے سامنے کیسے پیش کی جا سکتی ہیں تاکہ آپ کے لیے سیکھنا آسان ہو۔ جس طرح سے آپ سیکھتے ہیں۔ تو اپنی مرضی کے مطابق سیکھنے کی یہ ایک بڑی صلاحیت ہے۔ تو آپ اس گروہ کے ساتھ کام کرنے کا تصور کریں جو خاصےکمزور ہیں۔ اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ ان لوگوں کی زندگی انصاف کے نظام میں پس کر رہ جاے لیکن اب آپ ان تک بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکتے ہیں تاکہ وہ سیکھ سکیں اور ان کے کام کی جگہ پر کامیاب ہونے کا امکان زیادہ ہو۔"

System Artificial intelligence chatbot , Business woman using Smartphone With ChatGPT Chat Bot AI , Technology smart robot Ai Chat GPT application software , robot application Chat GPT Source: iStockphoto / picture/Getty Images/iStockphoto
یہ تو محظ ایک مثال ہے کہ کس طرح آسٹریلوی ادارے معاشرے میں بہتری اور لوگوں کی افادیت میں اضافے کے لیے AI سے امیدیں لگاکر بیٹھے ہیں.
کایلی واکر آسٹریلین اکیڈمی آف ٹیکنالوجیکل سایسنسز اینڈ انجینیرنگ کی سی ای او ہیں.
جیسا کہ اسٹیم انجن کی ایجاد نے لوگوں کی طرز زندگی اور معاشرت کو بدل کر رکھ دیا ایسے ہی آپ سمجھیے کہ AI موجودہ دور کا اسٹیم انجن ہے. ہمارے رہن سہن، کام کاج ، کھیل کود اور دیکھ بھال کرنے کے طریقوں کو یہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ وقت آگیا ہے ہم ایک قابل بھروسہ اور ذمہ دار AI نظام کی طرف بڑھیں اور اس موقع کو ضایع نہ ہونے دیں .کایلی واکر
لیکن ماہرین پہلے سے ہی خبردار کر رہے ہیں کہ ایک قابل بھروسہ اور ذمہ دار AI نظام کی تشکیل میں آسٹریلیا دوسروں سے پیچھے رہ سکتا ہے.
'Responsible AI' نامی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی حکومتی پالیسی، فنڈنگ، تحقیق اور سرمایہ کاری کے حساب سے گزشتہ دو دہائیوں سے پیچھے ہے۔
اس رپورٹ کے 13 ماہر مصنفین میں سے ایک پروفیسر سایمن لوسی ہیں جو آسٹریلین انسٹیٹیوٹ فار مشین لرننگ کے ڈایریکٹر ہیں.
"ہم چیٹ جی ٹی پی جیسی چیزیں دیکھ رہے ہیں، ہم خود مختار گاڑیاں دیکھ رہے ہیں... ہم اینٹی بائیوٹکس کی نئی قسمیں دیکھ رہے ہیں جو تیار ہو رہی ہیں اور یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ٹیکنالوجی کو ممکنہ طور پر کچھ نگرانوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے طریقوں تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو اس طریقے سے استعمال کیا جاے جو ہمارے معاشرے کی اقدار، اخلاقیات اور حکمرانی کے مطابق ہوں لہذا ایک ذمہ دار AI نظام ہی ان سب کا حل ہے."
اسی تناظر میں ایک اور اہم مدعا AI کی توسط سے پھیلنے والے پراپیگنڈا اور غلط معلومات کو روکنا ہے
یونیورسٹی آف کوینزلینڈ سے وابستہ پروفیسر شازیہ صادق کہتی ہیں کہ AI اب معاملے میں خاصا آگے بڑھ چکا ہے. "خاص طور پر جنریٹو AI کے ساتھ تیار کیا جانے والا متن جو اصل میں انسانی علم کی بنیاد میں دراندازی کے مترادف ہے اور یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ آیا اسے انسان نے بنایا ہے یا روبوٹ نے۔ تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔"
رواں برس کی مالیاتی بجٹ میں آسٹریلیوی حکومت نے کاروباری اداروں کو اپنے نظام کار میں AI کی ٹیکنالوجی کو ترویج دینے کے لیے 100 ملین ڈالرز کی رقم مختص کی ہے.
لیکن دوسرے ممالک جیساکہ امریکا کے مقابلے میں آسٹریلیا کی یہ رقم خاصی کم ہے.

現代汽車的人工智能 Source: Getty / Getty Images/piyaset
گزشتہ برس امریکا میں دفاع کےشعبے کو چھوڑ کر دیگر اداروں نے AI پر تحقیق اور پیشرفت کے لے لیے 1.7 ارب ڈالرز خرچ کیے.
محققین جیسا کہ سایمن لوسی نے امریکی کمپنی مایکروسافٹ کی جانب سے آسٹریلیا میں اگلی دو برس کی دوران پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کو خوش آیند قرار دیا ہے.
اس کے باوجود وہ اس ضمن میں مزید اقدامات کی خواہاں ہیں.
"میرے خیال میں مائیکروسافٹ کو یہاں سرمایہ کاری کرتے ہوئے دیکھنا ایک اچھی علامت ہے... ایک چیز جو میں اس قسم کی سرمایہ کاری کے ساتھ کچھ اور دیکھنا چاہوں گا وہ ہے سرمایہ کاری میں تنوع، جیسا کہ ڈیٹا سینٹر کا قیام یا ڈیٹا سینٹر کی دیکھ بھال کے لیے کارکنان کی بھرتیاں اور فہم و دانش کی بہت ساری ملازمتیں، یہ سب اب تک آسٹریلیا میں اتنی نہیں جتنا ہم چاہتے ہیں۔"سایمن لوسی
کایلی واکر کہتی ہیں کہ کہ آسٹریلیا کو بھی بدلتے زمانے کے ساتھ ہمقدم رونے کے لیے اگلے سال کے تک مزید ایک لاکھ ڈیجیٹل طور پر ہنر مند کارکن تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
"ہمارا خیال ہے کہ ہم 2030 تک موجودہ ملازمتوں میں سے 25 سے 46 فیصد کے درمیان خودکار ہو سکتے ہیں۔ یہ زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا موقع بھی ہے اور ایک امتحان بھی. لیکن فی الحال تقریباً 7000 طلباء ان ڈیجیٹل نوکریوں کو حاصل کرنے کے لیے صحیح مہارت کے ساتھ یونیورسٹیوں سے فاغ ہورہے ہیں۔ تو سات ہزار سے ایک لاکھ تک کے ہدف کے لیے ایک مربوط قومی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
____________
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے: