ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو لندن کے سفولک تھانےمیں 11 جون کو پوچھ گچھ کے لئے لے جایا گیا تھا، مگر دوسرے دن ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔
ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق، برطانیہ میں جرائم کی پیروی کرنے والے ادارے کراؤن پراسیکیوشن سروس نے پولیس کو ہدایت کی کہ معاملے کی تفتیش جاری رکھی جائے اور مزید تحقیق کے بعد یہ کیس دوبارہ انھیں بھیجا جائے۔
ایس بی ایس اردو نے اس سلسلے میں برطانیہ میں مقیم سینیئر صحافی شفیع نقی جامعی سے تفصیلات معلوم کیں جنہوں نے بتایا کہ " نہ تو یہ حراست ہے، نہ یہ گرفتاری اورنہ کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے"۔
سینیئیر صحافی کے مطابق الطاف حسین کو اشتعال انگیز تقریر کرنے کے سلسلے میں پولیس تھانے لے کر گئی تھی۔

Police at the scene in London, where Dr Imran Farooq, a member of the MQM party, was found with head injuries, September 17, 2010. Photo: Ian West/PA Wire Source: Press Association
"الطاف حسین کو پولیس ان کی اس تقریر پر پوچھ گچھ کے لئے لے کر گئی تھی جس میں مبینہ طور پر پارٹی ورکرز کوتشدد یا حملے پر اکسیا گیا تھا۔
"پاکستان کے خلاف جو بھی الفاظ بولے گئے تھے وہ قابل گردن زدنی تو نھیں تھے لیکن قابلِ گرفت تھے، جس کی بنیاد پر پاکستان نے الطاف حسین کے خلاف ایک ریفرینس دائر کیا تھا، جس پر اب کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔
حالیہ پیشرفت کو برطانیہ کے وزیرِداخلہ ساجد جاوید کے اس بیان کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے جس میں انھوں نے اس ریفرنس کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
2016 میں منی لانڈرنگ اور لندن منی لانڈرنگ اور لندن میں پولیس کو رقم ملنے کے سوال پر شفیع نقی جامعی نے کہا کہ پولیس کا موقف ہے کہ ملنے والی رقم کا منی لانڈرنگ سے تعلق نھیں تھا اور ناکافی شواہد کے باعث منی لانڈرگ کی تحقیقات ختم کردی گئی تھیں۔

Supporters of Pakistan's MQM party hold photographs of their party leader Altaf Hussain in Karachi on June 6, 2014. ASIF HASSAN/AFP/Getty Images Source: AFP
"اسکاٹ لینڈ یارڈ نے کہا ہے کہ پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم کا منی لانڈرنگ یا کسی قسم کے جرم سے کوئی تعلق نھیں اور نہ ہی اسے کسی غیر قانونی کاموں کے لئے استعمال کیا جانا تھا"۔
سینیئیر صحافی نے بتایا کہ برطانیہ میں مذہب، رنگ اور نسل پر اشتعال انگیز بات چیت پر واضع قوانین موجود ہیں۔ لیکن ایک تقریر جو کسی دوسرے ملک میں لوگوں کو اشتعال دلائے، اس سلسلے میں کورٹ کی کارروائی ہی مزید روشنی ڈالے گی۔
"دونوں ملکوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نھیں جس کے تحت کسی ایک ملزم کو دوسری حکومت کو ایسے معاملے (اشتعال انگیز تقریر) پر حوالے کیا جائے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نفرت انگیز تقریر پر اور برطانیہ کی پولیس کی کارروائی پر پاکستانی وکیل موقف اختیار کرتے ہیں۔
دونوں فریقین کے وکلا کے دلائل کے بعد ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔




