کرونا وائرس کے باعث جہاں کاروبار اور دیگر معاشی اور غیر معاشی شعبوں میں تبدیلیاں آئی ہیں وہیں آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے طلبا کو اسٹوڈنٹ ویزا کے حصول میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔
تعلیم اور اسٹوڈنٹ ویزا امور کے ماہر (ایجوکیشن کنسلٹنٹ) سعادت کاظمی کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر پاکستانی طلبا آف شور (پاکستان سے) اور آن شور(آسٹریلیا ہی میں) ویزا کی درخواست دیتے ہیں۔
" جو پاکستانی طلبا آسٹریلیا میں موجود ہیں یا وہ افراد جو آسٹریلیا میں ہیں اور اسٹوڈنٹ ویزا کی درخواست جمع کرا رہے ہیں ان پر عملدراد ہورہا ہے۔
"لیکن وہ طلبا جو بیرونِ ملک یا پاکستان سے آسٹریلیا میں تعلیم کے لئے ویزا کی درخواست جمع کرارہے ہیں وہ تعطل کا شکار ہیں۔

Students visa processing times Source: Department of Home Affairs website
" آف شور درخواست گزاروں کے لئے پراسیسنگ ٹائم ( درخواست پر عملدرامد کا وقت) بڑھ گیا ہے۔
"اس کی وجہ دنیا بھر میں کروناوائرس کی وبا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انٹرنیشنل فلائٹس بند ہوئی ہیں بلکہ یونیورسٹی میں کلاسیں بھی نہیں ہورہی ہیں۔
" اس کے علاوہ ویزا سے جڑی خدمات بھی میسر نہیں۔ پہلے طبی معائنے کے لئے جو ٹیسٹ ہوتے تھے وہ رک گئے ہیں اور ادارے نئی درخواستیں بھی نہیں لے رہے۔"
سعادت کاظمی کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے کئی افراد اسٹوڈنٹ ویزا کے لئے کوشش بھی نہیں کررہے۔

International students line up for the Our Shout food voucher scheme outside the Melbourne Town Hall. Source: Getty Images AsiaPac
"وبا سے پہلے اگر سو سے ڈیڑھ سو درخواست گزار تھے تو اب ان کی مہانہ تعداد دس سے پندرہ رہ گئی ہے۔"
ہوبارٹ کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے سلیمان کو حال ہی میں (آن شور) اسٹوڈنٹ ویزا ملا ہے۔ وہ دو ہزار چودہ میں پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے آسٹریلیا آئے تھے اور اب تک مختلف کورسز کرچکے ہیں۔
سلیمان کا کہنا ہے کہ عام تاثر کے مقابلے میں انہیں ویزا حاصل کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں۔
"میں کاروبار چلانے سے متعلق تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا اور مجھے آسٹریلیا میں بہت ہی معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔"
کووڈ۔۱۹ وبا کے دوران حکومت نے جاب کیپر اور جاب سیکر پروگرام شروع کئے لیکن ان میں بینالاقوامی طلبا شامل نہیں تھے۔

International student Suleman Source: Supplied
" میں نے جو پیسے بچائے تھے ان ہی کے ذریعے گزارا کیا۔ ہفتے میں جو بیس گھنٹے پارٹ ٹائم کام کے لئے میں ملتے ہیں، اسی میں کام کیا"
سعادت کاظمی کا کہنا ہے کہ ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں طالب علم کو ویزا مل گیا ہے لیکن بینالاقوامی سفر نہ کرنے کی وجہ سے وہ آسٹریلیا نہیں آسکتے۔
"ایسے طلبا کو یونیورسٹیاں ہدایت کررہی ہیں کہ یا تو وہ اپنا کورس آگے بڑھا دیں یا پھر آن لائن کلاس لے لیں۔
سعادت کاظمی کا کہنا ہے کہ پہلے طلبا صرف سڈنی یا میلبورن کا رخ کرتے تھے لیکن پچھلے چند سالوں میں ہوبارٹ، ایڈیلیڈ اور برسبین کی طرف بھی رجحان بڑھ رہا ہے۔
"مجموعی طور پر صرف دو ہی علاقے تھے جہاں طلبا آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے لیکن اب یہ ٹرینڈ تبدیل ہوگیا ہے۔
"آپ کو پاکستانی طلبا اب آسٹریلیا کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئی نظر آئیں گے۔"
اس آرٹیکل میں دی گئی معلومات عام آگہی کے لئے ہے۔ مائیگریشن یا ویزا سے جڑی کسی بھی مخصوص معلومات کے لئے حکومتی ویب سائٹ یا ریجسٹرڈ مائگریشن ایجنٹ سے رابطہ کریں۔
آسٹریلیا میں لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے کے دوران کم ازکم ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنا چاہیئے۔
کروناوائرس ٹیسٹنگ اب آسٹریلیا بھر میں موجود ہے۔ اگر آپ میں نزلہ یا زکام جیسی علامات ہیں تو اپنے ڈاکٹر کو کال کرکے ٹیسٹ کرائیں یا پھر کرونا وائرس انفارمیشن ہاٹ لائن 080 180020 پر رابطہ کریں۔
وفاقی حکومت کی کروناوائرس ٹریسنگ ایپ کووڈسیف اب آپ کے فون پر ایپ اسٹور کے ذریعے دستیاب ہے۔
ایس بی ایس آسٹریلیا کی متنوع آبادی کو کووڈ ۱۹ سے متعلق پیش رفت کی آگاہی دینے کے لئے پرعزم ہے ۔ یہ معلومات تریسٹھ زبانوں میں دستیاب ہے۔