آسٹریلیا میں مقیم سرینگر سے تعلق رکھنے والے انجم رفیق کا کہنا ہے کہ کشمیر مکمل طور پر بند ہے اور کسی سے بھی وہاں بات نہیں ہو پارہی ہے۔
"کشمیر میں اس وقت بالکل کرفیو لگا ہوا ہے۔ سب کمیونیکیشن (مواصلات) بند ہے۔
اکّا دکّا کوئی پیغام ٹوئیٹر یا کسی صحافی کے ذریعے آتا ہے۔
کسی کو کچھ نہیں پتا وہاں کیا ہورہا ہے۔"
انجم رفیق کے گھر والے اور دوست احباب سری نگر میں رہائش پزیر ہیں۔

(AP Photo/Dar Yasin) Source: AP
ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل تین سو ستّر ختم کرنے سے پہلے ہی حکومت نے اقدامات لینے شروع کردیئے تھے۔
"پہلے یاتریوں کو روک دیا گیا ، اس کے بعد سیاحوں کو بھی کشمیر سے نکال دیا گیا تھا۔ ایک اینجینیرنگ کالج ہے جو میں طلبا پورے بھارت سے آتے ہیں۔ انھیں بھی وہاں سے جانے کا کہہ دیا گیا تھا۔
تو یہ کہنا درست ہوگا کہ جو بھی کشمیر کا رہائشی نہیں تھا اس وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔
اب ظاہر ہے کہ جب ایسی حالت آپ کے سامنے ہو اور یہ کہا جارہا ہوکہ حالات سب ٹھیک ہیں تو ایسی صورتحال میں یہ ایک تشویشناک ماحول بنائے گا۔
میں نے جس سے بھی بات کی کشمیر میں، سب ہی گھبرائے ہوئے تھے اور سب ہی کسی کریک ڈاؤن کا انتظار کر رہے تھے۔
کسی کو نہیں پتا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔"
انجم رفیق کا کہنا ہے کہ آرٹیکل تین سو ستّر کی ایک علامتی حیثیت تھی جو اب ختم ہوگئی۔

(EPA/FAROOQ KHAN) سری نگری Source: EPA
"یہ آرٹیکل واحد کینٹریک تھا جس کی بنا پر بھارت اور جموں و کشمیر کے درمیان ایک کنیکشن(رابطہ) تھا۔
اس آرٹیکل پر کام کیا تھا مہاراجہ ہری سنگھ نے جس میں دیگر پروویژن بھی رکھے تھے، جو کہ اب نہیں ہیں۔
یہ ایک ٹرسٹ ڈیِڈ تھا جواب ختم ہوگیا اور[جس پر] بھروسہ بھی ختم ہوگیا۔ ہم اب بھارت کی ایک کالونی میں تبدیل ہوگئے ہیں
اب ہمارے سارے معاملات نئی دلّی طے کرے گا۔"




