نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے لیے ہلکی پھلکی کک اور پرتپاک استقبال۔
جلاوطن افغانستان کی خواتین کی فٹ بال ٹیم عالمی شخصیت سے مل کر بہت پرجوش ہے جو فٹ بال کی گورننگ باڈی، فیفا کی جانب سے اس ٹیم کی باضابطہ شناخت کے لیے مہم چلانے میں مدد کر رہی ہے۔
فٹبال کی پرستار ملالہ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا پہنچیں توانہوں افغان خواتین کی ٹیم سے ب کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور کہا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ فیفا یہ فیصلہ کرے کہ وہ طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ وہ افغانستان کی خواتین کے ساتھ کھڑی ہے۔"
160,000 سے زیادہ لوگوں نے اس مقصد کی حمایت کرنے والی پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔
ٹیم ڈائریکٹر خالدہ پوپل کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کو کھلاڑیوں کی اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کی خواہش کا احترام کیا جانا چاہیے۔
"دنیا بھر کے لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملالہ اور میلبورن وکٹری (فٹ بال کلب) جیسے حیرت انگیز، لاجواب لوگ اور دوسرے لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم پر امید ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس میں تنہا نہیں ہیں۔"
فیفا کا کہنا ہے کہ اسے کسی ٹیم کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا حق نہیں ہے جب تک کہ اسے متعلقہ ممبر ایسوسی ایشن پہلے اسے تسلیم نہ کرے۔ امن کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف ذئی کا کہنا ہے کہ قوانین کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
"آخر میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ قواعد و ضوابط نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ کیا کھلاڑی کھیل کو کھیلنے کے قابل ہیں۔ اس لیے ہم نے قواعد و ضوابط کے بہانے کافی سنے ہیں۔"
ٹیم کی کپتان فاطمہ یوسفی کا کہنا ہے کہ دو سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فرار ہونے والے کھلاڑیوں کے لیے فٹ بال ایک مرہم بن سکتا ہے۔
"ہم بہت پریشانیوں سے گزر چکے ہیں اور ہمیں سبنھلنے کے لیے وقت درکار ہے۔ فٹ بال کا کھیل دوا ہے۔ یہ کھیل ہمارے زخموں، جنگ کے زخموں، افغانستان میں جو کچھ ہوا اس کے زخموں کو بھرنے میں مدد کرسکتا ہے۔"