کمپنی کا بورڈ ہو یا کسی ادارے کا سربراہ، مجموعی طور پر مرد ہی مینیجمنٹ میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے آسٹریلوی سماجی وکیل الیزہ بیتھ براڈریک نے دس سال پہلے ایک مہم تشکیل دی جس کا نام "میل چیمپئینز آف چینج (ایم سی سی)" رکھا گیا۔
مہم کا مقصد اداروں میں خواتین کے ساتھ صنفی مساوات میں بہتری لانا تھا جس کی ترقی پزیر ممالک سے لے کرترقی یافتہ معاشروں میں بھی کمی نظر آتی ہے۔
مہم کی انوکھی بات یہ ہے کہ اس مہم کا محور خواتین کے بجائے مرد حضرات ہیں جو اداروں میں خواتین کی بہتری کے لئے کام کریں گے۔
ایم سی سی ادارے کی پہلی شاخ پاکستان میں پچھلے سال کھلی ہے جس کی سربراہ، فضا فرحان ہیں۔
ایس بی ایس اردو سے گفتگو میں فضا فرحان کا کہنا ہے کہ اس ایم سی سی کے ذریعے وہ پاکستان میں صنفی مساوات کے لئے اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔

Founder of Male Champions of Change Elizabeth Broderick with Fiza Farhan (right), Head of Pakistan Chapter, MCC. Source: Supplied
"اگر ہم کسی ادارے میں ویمن ایمپاورمنٹ ( با اختیار خواتین) کی بات کرتے ہیں تو خواتین ہی خواتین سے خواتین کے بارے میں بات کرتی ہیں، حالانکہ ادارے کی مینیجمنٹ یا لیڈرشپ میں مردوں کا تناسب تقریباً اٹھانوے فیصد ہے۔
"یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مردوں سے بغیر رابطہ کئے یہ تبدیلی لاسکیں؟
"اسی معاملے کے حل کے لئے ایم سی سی ایک بہت ہی اہم کردار ادا کررہا ہے۔"
فضا فرحان کا کہنا ہے کہ ایم سی سی پاکستان کئی اداروں کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
ایم سی سی پاکستان کی منتظمِ اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کا سربراہ چیمپئین نہیں بن سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ شخض ذاتی طور پر بھی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہو۔
"یہ ضروری ہے کہ وہ شخض صنفی مساوات کے مُدعے پر کام کرے، انفرادی اور اداراتی لحاظ سے۔"
ایم سی سی کے اشتراک سے لاہور قلندرز کی خواتین ٹیم کرکٹ آسٹریلیا سے مِل کر کام کررہی ہے اور جلد ہی خواتین کی ٹیم ٹریننگ کے لئے آسٹریلیا کا دورہ بھی کرے گی۔