آسٹریلیا میں ڈیمنشیا میں مبتلا بیشتر تارکینِ وطن مریض دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ گھر پر رہتے ہیں ۔ محققین کو امید ہے کہ میلبورن کئے جانے والے ان مثبت میوزک تھراپی پروگرام سے پوری دنیا میں ڈیمینشیا کے شکار افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ ہوم سائیڈ پروگرام کا مقصد دیکھ بھال کرنے والوں کو ایک خاص حکمت عملی کےساتھ موسیقی کو استعمال کرنے کی مشق کروا کر الزائمر اور ڈمینشیا کے مریضوں کی زندگی کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ میوزک تھراپی کے ماہرین گھر میں دیکھ بھال کرنے والوں کی تربیت کرتے ہیں. اس پروگرام کی سربراہ محترمہ میک کابی کہتی ہیں کہ گھر پر کی جانے والی میوزک تھراپی سے نہ صرف مریض کو آرام ملتا ہے بلکہ اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے تناؤ میں بھی کمی آسکتی ہے۔ جب دیکھ بھال کرنے والے یا کئیریر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیارا پُرسکوں انداز سے موسیقی سن رہا ہے اور اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تو وہ بھی سکون سے دوسرے کام کر سکتا ہے۔
کئیریرز کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ جس شخص کی دیکھ بھال کررہا ہے اس کے بدلتے موڈ کے مطابق کس طرح پروگرام میں تبدیلی کریں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک بار ڈیمینشیا کی تشخیص ہونے کے بعد یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مریض کی دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی کام نہیں کر سکتا اور مریض کو بھی عام طور پر غیر اعلانیہ طور پر ناکارہ سمجھا جانے لگتا ہے جو ایک بالکل غلط تصور ہے جس سے ایسے مریضوں کہ بارے میں نہ صرف منفی رویہ پیداہ ہوتا ہے بلکہ ڈیمینشیا کے شکار افراد کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک کا باعث بن سکتا ہے۔
مزید جانئے

When parents forget your name
میلبورن یونیورسٹی میں میوزک تھراپی کی سربراہ ، پروفیسر فیلیسی بیکر نے "ایس بی ایس نیوز کو بتایا کہ موسیقی ماضی کی یادوں کو متحرک کرتی ہے۔ جب ہم ایسی موسیقی سنتے ہیں جو ہمارے لئے معنی خیز ہے تو اس سے یادیں لوٹ آتی ہیں اور خوشی و مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ پروفیسر فیلسی کے مطابق موسیقی نہ صرف مختلف کلچر سے تعلق رکھنے والوں کو قریب لاتی ہے بلکہ نرسنگ ہومز کے عملے، کئیریرز اور مریضوں کو بھی آپس میں جوڑتی ہے۔
موسیقی کو تھراپی کے طور پر استعمال کرنا بہت آسان اور کارآمد ہے،اسی طرح کے کئی اور تجربات دنیا بھر میں ہو رہے ہیں
اسی طرح کے تجربات کی روشنی میں الزائمرز کے عالمی دن کے موقع پر بی بی سی اردو نے بی بی سی ورلڈ کی میوزک میموریز کی بین الاقوامی موسیقی کی لائیبریری کو وسعت دینے میں مدد دی ہے دی ہے ۔ ڈیمینشیا کے عالمی ہفتے کے موقع پر اس لائیبریری میں گانوں، نغموں اور دھنوں کی مدد سے دنیا بھر کی ثقافتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی بی سی اردو کے سینئیر بڑادکاسٹ جرنلسٹ حسن ذیدی نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ اس پلے لسٹ کو تیار کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان سے لے کر ارجنٹینا تک بی بی سی کے قارئین کو دعوت گئی کہ وہ اپنے اپنے ممالک کے اُن مشہور و معروف گانوں کا انتخاب کریں جو ان کی یادوں میں آج بھی نقش ہیں۔
حسن ذیدی نے بتایا کہ استاد نصرت فتح علی خان کے کیریئر کے ابتدائی ادوار کے حوالے سے ایک مضمون اور پوڈ کاسٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔ اس فیچر میں پاکستان کے نامور قوّال کے اُس دور کا احاطہ کیا گیا ہے جب انھیں بین الاقوامی سطح پر مقبولیت نہیں ملی تھی۔
اس کے علاوہ بی بی سی کے میوزک میموریز پراجیکٹ کے تحت بی بی سی اردو کی اسلام آباد اور لندن میں موجود ٹیموں نے مل کر پاکستانی گلوکار عالمگیر کا مشہور نغمہ ’دیکھا نہ تھا‘ کو ملک کے چند مقبول نوجوان گلوکاروں اور موسیقاروں کی مدد سے دوبارہ تشکیل دیا ہے۔ اس گانے کی ریکارڈنگ اور ویڈیو کی فلم بندی کورونا وائرس کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کے دوران ہوئی اور تمام تر فنکاروں نے اپنے اپنے حصے خود گھر بیٹھے ریکارڈ کیے ہیں۔
حسن زیدی کا کہنا تھا کہ اس انتخاب میں نازیہ حسن اور عالمگیر کے علاوہ مہدی حسن، اقبال بانو، احمد رشدی، زبیدہ خانم، طفیل نیازی، ریشما، وائٹل سائنز، عابدہ پروین اور دیگر فنکار شامل ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی گیتوں کے انتخاب میں آسٹریلیا میں رہنے والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔

Source: Getty

Source: Getty iamges

Source: Facebook
سوشل میڈیای پر آسٹریلین شائیقین نے بھی اُن پاکستانی گانوں کے بارے میں اپنی رائے دی جو انہیں ماضی میں لے جاتے ہیں

Source: Facebook-best of Nazia Hassan
مکمل بات چیت سننے کے لئے سب سے اوپر دئے اسپیکر پر کلکِ کیجئے