یاداشت کے مریضوں کے لئے موسیقی اور اس کے عالمی انتخاب میں آسٹریلن اردو سامعیں بھی شریک

therapy by Music

Source: Getty

آسٹریلیا میں تارکینِ وطن کے ڈیمنشیا میں مبتلا معمر مریضوں کی کھوئی یاد داشت کو واپس لانے کے تجربات میں موسیقی کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی کے ذریعے ان مریضوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ایک طرف آسٹریلیا میں اسی طرح کے تجربات جاری ہیں تو دوسری طرف ایک عالمی نشریاتی ادارے نے دنیا بھر سے ایسے گیتوں اور نغموں کا انتخاب کیا ہے جو یاد داشت کے مریضوں کو ہی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کو ماضی کی سنہری یادوں میں لے جاتے ہیں۔ اس عالمی موسیقی کے ذخیرے کے انتخاب میں آسٹریلین اردو سامعیں نے بھی حصہ لیا ہے۔


 آسٹریلیا میں ڈیمنشیا میں مبتلا  بیشتر تارکینِ وطن مریض دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ گھر پر رہتے ہیں ۔ محققین کو امید ہے کہ میلبورن کئے جانے والے ان مثبت میوزک تھراپی پروگرام سے پوری دنیا میں ڈیمینشیا کے شکار افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ ہوم سائیڈ پروگرام کا مقصد دیکھ بھال کرنے والوں کو ایک خاص حکمت عملی کےساتھ موسیقی کو استعمال کرنے کی مشق کروا کر الزائمر اور ڈمینشیا کے مریضوں کی زندگی کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ میوزک تھراپی کے ماہرین گھر میں دیکھ بھال کرنے والوں کی تربیت کرتے ہیں. اس پروگرام کی سربراہ  محترمہ میک کابی کہتی ہیں کہ گھر پر کی جانے والی میوزک تھراپی سے نہ صرف مریض کو آرام ملتا ہے بلکہ اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے تناؤ میں بھی کمی آسکتی ہے۔  جب دیکھ بھال کرنے والے یا کئیریر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا  پیارا پُرسکوں انداز سے موسیقی سن رہا ہے اور اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تو وہ بھی سکون سے  دوسرے کام کر سکتا ہے۔
کئیریرز کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ جس شخص کی دیکھ بھال کررہا ہے اس کے بدلتے موڈ کے مطابق کس طرح پروگرام میں تبدیلی کریں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک بار ڈیمینشیا کی تشخیص ہونے کے بعد یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مریض کی دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی کام نہیں کر سکتا اور مریض کو بھی عام طور پر غیر اعلانیہ طور پر ناکارہ سمجھا جانے لگتا ہے جو ایک بالکل غلط تصور ہے جس سے ایسے مریضوں کہ بارے میں نہ صرف منفی رویہ پیداہ ہوتا ہے بلکہ ڈیمینشیا کے شکار افراد کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک کا باعث بن سکتا ہے۔
میلبورن یونیورسٹی میں میوزک تھراپی کی سربراہ ، پروفیسر فیلیسی بیکر نے "ایس بی ایس نیوز کو بتایا کہ موسیقی ماضی کی یادوں کو متحرک کرتی ہے۔ جب ہم ایسی موسیقی سنتے ہیں جو ہمارے لئے معنی خیز ہے تو اس سے یادیں لوٹ آتی ہیں اور خوشی و مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔  پروفیسر فیلسی کے مطابق موسیقی نہ صرف مختلف کلچر سے تعلق رکھنے والوں کو قریب لاتی ہے بلکہ نرسنگ ہومز کے عملے، کئیریرز اور مریضوں کو بھی آپس میں جوڑتی ہے۔
موسیقی کو تھراپی کے طور پر استعمال کرنا بہت آسان اور کارآمد ہے،اسی طرح کے کئی اور تجربات دنیا بھر میں ہو رہے ہیں
اسی طرح کے تجربات کی روشنی میں الزائمرز کے عالمی دن کے موقع پر بی بی سی اردو نے بی بی سی ورلڈ کی میوزک میموریز کی بین الاقوامی موسیقی کی لائیبریری کو وسعت دینے میں مدد دی ہے دی ہے ۔ ڈیمینشیا کے عالمی ہفتے کے موقع پر اس لائیبریری میں گانوں، نغموں اور دھنوں کی مدد سے دنیا بھر کی ثقافتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی بی سی اردو کے سینئیر بڑادکاسٹ جرنلسٹ حسن ذیدی نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ اس پلے لسٹ کو تیار کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان سے لے کر ارجنٹینا تک بی بی سی کے قارئین کو دعوت گئی کہ وہ اپنے اپنے ممالک کے اُن مشہور و معروف گانوں کا انتخاب کریں جو ان کی یادوں میں آج بھی نقش ہیں۔
Noor Jahan
Source: Getty
حسن ذیدی نے بتایا کہ استاد نصرت فتح علی خان کے کیریئر کے ابتدائی ادوار کے حوالے سے ایک مضمون اور پوڈ کاسٹ بھی  جاری کیا گیا ہے۔ اس فیچر میں پاکستان کے نامور قوّال کے اُس دور کا احاطہ کیا گیا ہے جب انھیں بین الاقوامی سطح پر مقبولیت نہیں ملی تھی۔
Nusrat Fateh Ali
Source: Getty iamges
اس کے علاوہ بی بی سی کے میوزک میموریز پراجیکٹ کے تحت بی بی سی اردو کی اسلام آباد اور لندن میں موجود ٹیموں نے مل کر پاکستانی گلوکار عالمگیر کا مشہور نغمہ ’دیکھا نہ تھا‘  کو ملک کے چند مقبول نوجوان گلوکاروں اور موسیقاروں کی مدد سے دوبارہ تشکیل دیا ہے۔ اس گانے کی ریکارڈنگ اور ویڈیو کی فلم بندی کورونا وائرس کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کے دوران ہوئی اور تمام تر فنکاروں نے اپنے اپنے حصے خود گھر بیٹھے ریکارڈ کیے ہیں۔
Alamgeer
Source: Facebook
حسن  زیدی کا کہنا تھا کہ اس انتخاب میں نازیہ حسن اور عالمگیر کے علاوہ مہدی حسن، اقبال بانو، احمد رشدی، زبیدہ خانم، طفیل نیازی، ریشما، وائٹل سائنز، عابدہ پروین اور دیگر فنکار شامل ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی گیتوں کے انتخاب میں آسٹریلیا میں رہنے والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
سوشل میڈیای پر آسٹریلین شائیقین نے بھی اُن پاکستانی گانوں کے بارے میں اپنی رائے دی جو انہیں ماضی میں لے جاتے ہیں
Nazia Hasan
Source: Facebook-best of Nazia Hassan
بی بی سی اردو کے حسن ذیدی  کا کہنا تھا کہ مرکزی خیال یہ تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں  موجود اپنے سامعین کی مدد سے ایک پلے لسٹ مرتب کی جائے اور اس کے لئے  دنیا بھر کی لگ بھگ دو درجن زبانوں سے نغمے اکھٹے کئے گئے ۔  انہوں نے بتایا کہ ہر زبان سے  پچاس گانوں کا انتخاب کیا گیا ۔ انہوں نے پچاس یادگار پاکستانی گیتوں کے انتخاب کو اپنی زندگی کے مشکل ترین کاموں میں شمار کیا ۔حسن ذیدی کے مطابق میوزک میموریز کو جمع کرنے کا مقصد ڈیمینشیا کے مریضوں کی مدد کرنا ہے اور اس کے لئے  قارئین کو ایسے گیتوں کا انتخاب کرنے کی دعوت دی گئی جن سے ان کی اور ان کے بڑوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ قارئین سے یہ پوچھا گیا کہ کیسے گزرے زمانے کی یہ موسیقی ان کی یادیں واپس لانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے اوریہ کس طرح  یاد داشت سے محروم افراد کےلئے ایک تحفہ بن سکتی ہے۔  

 مکمل بات چیت سننے کے لئے سب سے اوپر دئے اسپیکر پر کلکِ کیجئے

 

 


شئیر
Follow SBS Urdu

Download our apps
SBS Audio
SBS On Demand

Listen to our podcasts
Independent news and stories connecting you to life in Australia and Urdu-speaking Australians.
Once you taste the flavours from Pakistan, you'll be longing for the cuisine.
Get the latest with our exclusive in-language podcasts on your favourite podcast apps.

Watch on SBS
Urdu News

Urdu News

Watch in onDemand