ماحولیاتی محققین مصنوعی مٹھاس پر زیادہ توجہ اور ممکنہ ضابطہ کاری کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ یہ دنیا بھر کے ماحول اور پانی کے ذخائر میں جمع ہو رہی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، سڈنی کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر استعمال کی جانے والی شوگر کے متبادل تحلیل نہیں ہو رہے اور "ہمیشہ رہنے والے کیمیکل" میں تبدیل ہو رہے ہیں، جو جانوروں اور ماحولیاتی نظام کے لیے پی-فاس جیسے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ مصنوعی مٹھاس والے مادے دنیا بھر کے آبی نظام میں جمع ہو رہے ہیں۔انہیں اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ جسم میں مکمل طور پر جذب نہ ہوں — اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمین یا پانی میں بھی آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔
یہ "ہمیشہ رہنے والے کیمیکل" بن جاتے ہیں جو ارتکاز میں بڑھتے اور زہریلے اثرات پیدا کرتے ہیں۔یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
کیونکہ قدرتی ماحول میں تمام جاندار ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔
تمام مصنوعی مٹھاس ایک جیسی نہیں ہوتیں، اور ان میں سے ایک — سوکرالوز — سب سے زیادہ خطرناک پائی گئی ہے کیونکہ یہ تحلیل نہیں ہوتی۔ یہ وہی مصنوعی مٹھاس ہے جو دنیا بھر میں سپلنڈا کے نام سے فروخت ہوتی ہے۔
سکرین اور سائکلیمٹ جیسے مصنوعی مادے نسبتاً آسانی سے پانی سے صاف کیے جا سکتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ مصنوعی مٹھاس کو ماحولیاتی نقصان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یورپی یونین میں بھی حالیہ برسوں میں اس پر متعدد تحقیقات ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر شوان لی کہتی ہیں کہ یہ اندازہ لگانا فی الحال ممکن نہیں کہ ان مائیکرو زہریلے مواد کے جمع ہونے سے انسانوں پر کب اور کتنا منفی اثر پڑے گا۔
_____