سی ایس آئی آر او ادارے سے تعلق رکھنے والے کامران نجیب اللہ کے پروجیکٹ کا نام "ڈیزیز نیٹورک موبیلیٹی" ہے۔
اس پروجیکٹ کو یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے" یوریکا پرائز فار ایکسیلینس اِن انٹرڈسپلینری سائنٹیفک ریسرچۤ" کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔
حال ہی میں آسٹریلیا میوزم یوریکا پرائز کے فائنلسٹ کی لسٹ جاری کی گئی ہے جس میں اس پراجکٹ کا نام بھی شامل ہے۔
پروجیکٹ کے گروپ لیڈر کامران نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے ڈینگی بیماری کی تلاش کی جاتی ہے۔
"آسٹریلیا میں رہنے والے جب بیرونِ ملک جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو اپنے ساتھ [عموماً] وائرس بھی لے آتے ہیں۔ ایسے وائرس جو آسٹریلیا میں موجود نہیں ہیں۔
کچھ وائرس ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔"
کامران کا کہنا ہی کہ اگرچہ کورنٹین کے باعث اکثر وائرس کو قابو کرلیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کورنٹین صرف ان وائرس کو روکتا ہے جو پہلے ہی سے ظاہر ہوچکے ہوں۔
"اگر آنے والا مریض پہلے ہی سے بیمار ہوچکا ہے اور اس کی علامات بھی ظاہر ہوچکی ہیں تب ہی اسے کورنٹین میں پکڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر علامات آسٹریلیا میں آکر ظاہر ہوتی ہیں تو پھر اس کی پکڑ نہیں ہوتی۔
"ہم ایک مخصوص ڈینگی وائرس پر کام کررہے ہیں۔ ڈینگی وائرس مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے اور آسٹریلیا میں کوئینز لینڈ کی ریاست میں یہ موجود ہے۔
"آسٹریلیا میں اگرچہ ڈینگی وائرس نہیں لیکن اس کا "کیرئیر" جو ڈینگی مچھر ہے، وہ موجود ہے۔"
ریسرچر کامرن کا کہنا ہے کہ ڈینگی کی علامات میں بخار اور زکام شامل ہیں۔ لوگ اسے عام بخار یا بیماری سمجھتے ہیں اور زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ہمیں انتظار ہی کرنا پڑتا ہے جب کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے۔

Source: Kamran Najeebullah (Supplied)
رپورٹنگ کے لئے ہم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ لوگوں میں آگاہی پیدا کرسکیں کہ جب یہ علامات ظاہر ہوں تو اسپتال جائیں اور اپنا ٹیسٹ کرائیں۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لوگ بیمار ہوں گے، مسئلہ یہ کہ لوگ دوسروں تک اس بیماری کو پھیلانے کا سبب بنیں گے۔
جب مچھر ایسے لوگوں کو کاٹتا ہے اور پھر کسی اور شخص کو کاٹتا ہے تو اسے یہ بیماری ہوجاتی ہے۔ اسی طرح یہ مرض پھیلتا ہے۔
کامران کا کہنا ہے کہ وہ ان مریضوں سے متعلق معلومات جمع کرتے ہیں جو اسے رپورٹ کرتے ہیں۔
"ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مریض کس موسم اور کس ملک سے آسٹریلیا آرہے ہیں۔
مریضوں سے متعلق معلومات ہم کوئینزلینڈ ہیلتھ سے اکھٹا کرتے ہیں جبکہ موسم کی معلومات ہم میٹیورولوجی ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کرتے ہیں۔"
ایوارڈ فائنلسٹ بننے پر کامران کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم کے افراد مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انٹرڈسیپلینری ہیں۔
"ہماری پاس ایکسپرٹ اسٹیٹسکس سے ہیں، ایپڈیمیالوجی سے ہیں، اور بِگ ڈیٹا سے ہیں اوراس ریسرچ کا خاصہ بھی یہی ہے کہ اس ٹیم میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین موجود ہیں۔"




