Key Points
- چھاتی کا سرطان ایک قابل علاج مرض ہے
- تقریباّ ایک فیصد مردوں میں بھی چھاتی کا سرطان ہو سکتا ہے۔
- آسٹریلیا میں موجود متنوع پس منظر رکھنے والی کمیونٹیز میں چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے
سرطان ایک جان لیوا مرض ہو سکتا ہے لیکن اس مرض کی کچھ اقسام بڑی حد تک قابل علاج ہیں ایسی ہی ایک قسم چھاتی کا سرطان بھی ہے ۔ جہاں آسٹریلیا میں چھاتی کے سرطان کی صحتیابی کا تناسب 92 فیصد تک ہے وہیں پاکستان میں یہ تناسب تقریبا 77 فیصد ہے جس کی اہم وجوہات میں سے ایک ابتدائی مرض میں تشخیص کا نہ ہونا اور مرض سے متعلق معلومات سے لا علمی ہے۔
آسٹریلیا میں بھی متنوع کمینوٹیز سے تعلق رکھنے والی خواتین میں چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔
اکتوبر کا مہینہ اس حوالے سے عالمی طور پر چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی اور شعور بیدار کرنے کیلئے پنکوٹوبر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح آسٹریلیا میں بھی اس سلسلے میں مختلف سرگرمیوں اور آگاہی مہم کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
سڈنی میں میک گراتھ فاونڈیشن کے زیر اہتمام ایسے ہی ایک رضاکارانہ کرکٹ ایونٹ کا انعقاد کیا گیا۔ پنک اسٹمپس کے نام سے منعقد اس کرکٹ ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے چار ٹیموں پاکستان، افغانستان ۔ انڈیا اور آسٹریلیا کے تحت حصہ لیا ۔ پاکستانی خواتین پر مشتمل ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کی۔

Credit: Supplied by maxine
مکسین نے ایس بی ایس اردو کو بتا کہ ٹورنامنٹ میں موجود خواتین نے کھیل کے دوران گلابی رنگ کے ملبوسات کے ذریعے اپنی ثقافت کو بھی اجاگر کیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں موجود آستریلین ٹیم کی جانب سے بھی تین پاکستانی نژاد خواتین نے شرکت کی ۔

Credit: Supplied by Rakhshanda Zaman
ایس بی ایس اردو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی منیجر رخشندہ زمان نے ایونٹ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ایک کمیونٹی لیڈر خاتون میکسین نے پنک اسٹمپس کو میک گراتھ فاونڈیشن کے ساتھ ریجسٹرڈ کیا اور پھر چار ٹیمیں ترتیب دیں ۔ میچ کے فوائد سے متعلق بات کرتے ہوئے رخشندہ کا کہنا تھا کہ یہ رضاکارانہ میچ نہ صرف پاکستانی خواتین کو کمیونٹی سے جوڑنے کا سبب بنا بلکہ امید ہے کہ اس میچ نے کمیونٹی میں آگاہی بھی بیدار کی ہوگی۔
پاکستانی کمیونٹی کا بہت اچھا رسپانس تھا ، میری ٹیم چوبیس گھنٹے میں تیار ہوگئی تھیرخشندہ زمان
اس ہی طرح کے خیالات کا اظہار ماہین خان کی جانب سے بھی کیا گیا جن کا کہنا تھا کہ اس میچ میں ھصہ لینے کا ایک مقصد سماجی طور پر متنوع پس منظر کی خواتین سے ربط قائم کرنا بھی تھا۔ ماہین کے مطابق مستقبل میں ایسے دوستانہ میچز نہ صرف آگاہی کا سبب ہیں بلکہ بچوں کو بھی معلومات فراہم کرے کا موقع دیتے ہیں ، ماہین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام تصور یہ ہے کہ یہ مرض صرف خواتین کو ہی اپنا شکار بناتا ہے لیکن انتہائی کم شرح سہی مرد بھی اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب میچ میں شامل سبین ناصر کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمینوٹی ہمیشہ اچھے مقاصد کے لئے رضاکارانہ خدمات فراہم کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے ۔
کوئی بھی مقصد ہو متنوع کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین رضاکارانہ ایونٹس میں پورے جوش سے حصہ لیتی ہیںسبین ناصر
سبین جو اپنی بیٹی کے ساتھ ٹیم کا حصہ تھیں ان کے مطابق کسی بھی ٹیم کا مقصد جیت یا ہار نہیں تھا بلکہ تمام ٹیموں میں موجود رضاکار خواتین کو اپنا ایک چھٹی کا دن اس مقصد کے لئے صرف کرنے آئی تھیں وہ چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے کی خواہشمند تھیں ۔
آخر میں ٹیم میں شریک تمام خواتین نے یہ امید ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی اس طرح کے مقابلوں کے ذریعے مختلف موضوعات پر شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے: