ڈاکٹر کلارا ٹک منگ سو، جو کینبرا میں ایک جی پی ہیں، نے کہا کہ بہت سے تارکین وطن پس منظر والے ٹرانس جینڈر افراد اپنے خاندانوں کی طرف سے عدم برداشت کا سامنا کرتے ہیں، جو یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر شناخت ایک مغربی ایجاد ہے۔ "اگر آپ زیادہ تر ٹرانس جینڈر افراد سے بات کریں، تو وہ حقیقت میں یہ کہیں گے کہ ٹرانس جینڈر ہونا ان کی پیدائشی شناخت کا حصہ ہے،" انہوں نے کہا۔ "آسٹریلیا میں پروان چڑھنے نے انہیں اپنی شناخت کو تلاش کرنے اور اسکی توثیق کرنے کا موقع دیا ہے۔۔۔ اس تصور کا کا مغربی ہونے یا اپنے اصل ثقافت کو رد کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔" یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو کم، کے لئے جانا پہچانا ہے، وہ مالئشیا سے تعلق رکھنے والے ایک مخنث شخص ہیں۔ "جب میں باہر آیا تو مجھے جو بیانیے سنائے گئے، ان میں سے بہت سے یہ تھے کہ ٹرانس جینڈر ہونا ایک بہت مغربی تصور ہے،" انہوں نے ایس بی ایس ایگزیمینز کو بتایا۔
لیکن ہم تاریخی طور پر ہر دور میں موجود رہے ہیں چاہے ہندوستان ہو یا انڈونیشیا میں ’ہجڑہ‘ دیگر ثقافتیں یہاں تک کہ نیوزی لینڈ کی ماؤری ثقافت میں بھی ہم موجود ہیں."
ہم ہر جگہ موجود ہیں۔ اسے صرف مخنس(ٹرانسجینڈر) کے نام سے نہیں مانا جاتا ہے، لیکن ہمارا وجود یہاں ہے۔
This episode of Understanding Hate looks at the impacts of transphobia in Australia.
___
جانئے کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک کریں ہر بدھ اور جمعہ کا پورا پروگرام اس لنک پرسنئے, اردو پرگرام سننے کے دیگر طریقے, “SBS Audio” کےنام سےموجود ہماری موبائیل ایپ ایپیل (آئی فون) یااینڈرائیڈ , ڈیوائیسزپرانسٹال کیجئے۔