جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وفاقی خزانچی جم چلمرز نے 2023 کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ آسٹریلیا میں بسنے والی کثیر الثقافتی برادریوں پر یہ بجٹ کیسے اثر انداز ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آسٹریلوی اس وقت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ اسی لیے ذمہ دارانہ، ہدفی ریلیف فراہم کرنا اس بجٹ میں پہلی ترجیح ہے۔ ہمارا 14.6 بلین ڈالر کی لاگت سے زندگی گزارنے کا منصوبہ: بجلی کے بلوں میں مدد فراہم کرے گا۔ جیب سے باہر صحت کے اخراجات کو کم کریگا۔ کمزور آسٹریلوی باشندوں کی مدد کریگا۔ مزید سستی رہائش بنانے میں مدد دے گا۔ اور اجرت میں اضافہ کریگا۔
ویسے تو جم چلمرز کے اس بیان کے بعد ہال تالیوں سے گونج اٹھا مگر وہاں پر ایسے افراد بھی موجود تھے جو تالیاں نہیں بجارہے تھے۔
نیشنل یونین آف اسٹوڈنٹس کی صدر بیلی ریلی کا کہنا ہے کہ وہ اس بجٹ کے بارے میں مزید جاننا پسند کریں گی۔
میرا مطلب ہےمیں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کی طرف سے کم از کم اقدام ہے۔ 15 فیصد اضافہ تقریباً 31 ڈالر فوٹرنائٹلی کے برابر ہے، جو کہ اس سال بڑے شہروں میں اوسط کرائے میں اضافے سے بہت کم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سڈنی جیسے شہروں میں کرایوں میں 20، 30، 40% اضافہ ہوا ہے، اور ہماری جانب سے کیا گیا یہ اضافہ اس سے بہت کم ہے۔ لیکن یہ واضح طور پر ایک مدد ہے، جو کسی حد تک نوجوانوں کی مدد کرے گی، خاص طور پر جو کرایوں کی ادائگیوں میں مدد چاہتے ہیں۔
آسٹریلیا کے کرایوں کے بحران سے غیر متناسب طور پر خواتین اور مقامی آسٹریلوی متاثر ہو رہے ہیں، اس بارے میں بات کرتے ہوئے ملٹی کلچرل سینٹر فار ویمنز کی چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ایڈیل مرڈولو کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ خواتین سے جو مسائل سنتا ہوں ان میں سب سے بڑا مسلہ روزمرہ کی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہے اور یقیناً میری خاص تشویش تارکین وطن خواتین کے لیے ہے جو زیادہ پسماندہ اور زیادہ پسماندہ علاقوں میں رہتی ہیں، اور کرائے کے اس بحران سے نمٹ رہی ہیں۔
ڈاکٹر مرڈولو نے زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کی شدید ضرورت ہے کہ یہ ریلیف تمام آسٹریلوی باشندوں کو فراہم کیا جائے۔
ہمارے پاس بچوں کی دیکھ بھال کی اسکیمیں یا مختلف قسم کی اسکیمیں ہیں جو صرف ان لوگوں کے لیے دستیاب ہیں جو مخصوص ویزوں پر ہیں، یا جو آسٹریلیا کے رہائشی ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو عارضی ویزوں پر آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں، لیکن وہ دراصل یہاں کئی، کئی سالوں سے مقیم ہیں۔ اور وہ یہاں آباد ہو گئے ہیں، اور یہاں ان کے بچے ہیں، اور وہ اکثر ان پروگراموں میں سے کچھ سے محروم رہتے ہیں۔
اسکے علاوہ اس بجٹ میں حکومت نے ہجرت یعنی مائگریشن کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے فنڈز مختص کیے ہیں، جو ان کے بقول ملک کی اہم مہارتوں میں افراد کی کمی کو دور کرے گا اور زیادہ پیداواری افرادی قوت تیار کرے گا۔
ایسے افراد جنکے پاس 14 فروری سے پہلے ٹمپرری پراٹیکشن سب کلاس 785 اور سیف ہیون انٹرپرائز سب کلاس 790 ویزے ہیں یا پھر انھوں نے ان ویزوں کے حصول کی درخواست دے رکھی ہے، حکومت انکے لیے مستقل ویزوں کی راہ ہموار کرے گی۔ اور امیگریشن اسسمنٹ اتھارٹی کو اگلے مالی سال میں چار ملین ڈالر دیے جائیں گے تاکہ وہ ناکام حفاظتی ویزا درخواستوں کے میرٹ کے جائزے کو جاری رکھیں جو کہ فاسٹ ٹریک جائزوں کے لیے اہل ہیں۔
اسائلم سیکر ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر ایڈوکیسی اینڈ کمپینز جانا فاویرو کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات خوش آئند ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ پناہ کے متلاشی لوگ اب بھی مرکزی دھارے کی سماجی مدد تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سیاسی پناہ کے خواہاں لوگوں کو مرکزی دھارے کی سماجی امداد سے کیوں باہر رکھا جاتا ہے۔ میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ زندگی کے بحران کی قیمت ہے، لیکن ہم ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو سیاسی پناہ کے خواہاں ہیں جو ہماری کمیونٹی میں ہیں: ساتھی کارکن، پڑوسی، جو جان بوجھ کر حکومت کے انتخاب کی وجہ سے، اور دونوں فریقوں میں، مجبور ہو رہے ہیں۔ غربت اور تنگدستی میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ .
اگرچہ اس بجٹ میں زندگی کی لاگت مرکزی حیثیت حاصل ہے ، فیڈریشن آف ایتھنک کمیونٹی کونسلز آف آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد الخفاجی کا کہنا ہے کہ اس سال کثیر ثقافتی صحت ان کی ترجیح رہی ہے۔
ہمارے خیال میں یہ بجٹ کثیر الثقافتی برادریوں کے لیے ایک اچھی شروعات ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ زندگی گزارنے کی لاگت کے اقدامات اور امدادی پیکجز تمام آسٹریلوی باشندوں کے لیے اہم ہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ اقدامات کثیر الثقافتی برادریوں پر بھی لاگو ہوں گے۔ لیکن ملٹی کلچرل ہیلتھ فنڈ پر، جو ہماری کمیونٹیز کے لیے ایک ترجیح ہے، ہم نے بجٹ میں چند اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک اچھی شروعات ہے اور ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ حکومت کثیر الثقافتی آسٹریلیا کے لیے مزید ڈیلیور کرے۔
محمد الخفاجی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے خاموشی سے ملٹی کلچرل ہیلتھ کنیکٹ لائن کو ختم کر دیا ہے، یہ ایک زبانی سروس ہے جو کثیر ثقافتی کمیونٹیز کو کووڈ ۱۹ کے بارے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
یہ ایک پائلٹ تھا، اور مجھے یقین ہے کہ اس وقت حکومت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ ہم کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کیسا ڈیزائین تیار کر سکتے ہیں۔ یہ یقینی بنانا بہت اہم ہے کہ یہ کثیر الثقافتی صحت میں ایک وسیع پیکیج کا حصہ بنے۔ اگر لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ملٹی کلچرل ہیلتھ کنیکٹ لائن موجود ہے، تو شاید وہ اسے استعمال نہیں کریں گے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ہمیں کثیر الثقافتی صحت میں اہم سرمایہ کاری کریں، اور اس بجٹ نے کثیر ثقافتی صحت میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اور ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ انہیں اگلے بجٹ میں مزید کام کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
اسکے علاوہ اس سال ستمبر سے دائمی بیماریوں کے مریض سستی ادویات تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ ڈاکٹر چلمرز کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت فارماسیوٹیکل بینیفٹس سکیم کے ذریعے زندگیاں بدلنے والی ادویات تک رسائی بڑھانے کے لیے 2.2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔
ہر ماہ اپنے فارماسسٹ کے پاس واپس جانے کے بجائے، عام، دائمی بیماریوں میں مبتلا بہت سے لوگ 300 سے زیادہ مختلف ادویات کے لیے دو ماہ کے قابل علاج حاصل کر سکیں گے۔
لیکن ڈاکٹر اڈیل مرڈولو کا کہنا ہے کہ ہر کسی کو پی بی ایس فنڈڈ ادویات تک رسائی نہیں ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو عارضی ویزا پر ہیں۔
لہذا ایک مہاجر عورت - جو حاملہ ہے، جسے میڈیکیئر تک رسائی نہیں ہے، وہ اپنے تمام قبل از پیدائش کے دوروں پر نہیں جائے گی۔ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وہ اس طرح ڈالر خرچ نہ کرے، اور علاج اور دیکھ بھال کو چھوڑ دیتی ہے یا تاخیر کرتی ہے۔ اور اس کا صرف منفی اثر پڑتا ہے۔ تو بالکل سستی دوائیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، یہ دیکھنا پسند کرتے ہیں کہ دوائیں حاصل کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن آئیے ان لوگوں کے بارے میں بھی سوچیں جو پیچھے رہ گئے ہیں اور جن کی پی بی ایس اور میڈیکیئر تک رسائی نہیں ہے۔
اسکے علاوہ اس بجٹ کے مطابق مقامی کمیونٹیز فرق کو ختم کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر کی توقع بھی کر سکتی ہیں، حالانکہ اس میں سے زیادہ تر کا اعلان پہلے کیا جا چکا ہے۔
حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ علاقائی آواز کے اداروں کو تیار کرے گی۔
یاد رہے کہ آسٹریلوی باشندے اس سال کے آخر میں ایک قومی ادارے کے لیے ریفرنڈم میں ووٹ دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
لیبر کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں مہنگائی کو کم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے سخت راستے پر چل رہی ہے اور بہت جلد اسکا اندازہ لگ جائے گا کہ آیا وہ اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکے ہیں یا نہیں۔