پولیو ذدہ بچی نے بڑے ہوکر جھونپڑی اسکول کھولا جہاں اب تین سو سے ذائید بچے پڑھتےہیں

Asoo kohli

Source: M Saqib

جب وہ چھوٹی تھییں تو پولیو کی وجہ سے رینگ رینگ کر اسکول جاتی تھیں۔ جہاں کئی لوگوں نے ان کی مدد کی تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو یہ کہتے تھے کہ آخر پڑھ لکھ کر کیا کروں گی؟ مگر آسو کوہلی کا کہنا ہے کہ ایک روشن ذہن معذور جسم کو بھی جینے کا ہنر سکھا دیتا ہے۔ آسوکوہلی نے سات سال پہلے سندہ کے ایک پسماندہ علاقے کی جھونپڑی میں اسکول شروع کیا جو آج دس کمروں پر مشتمل ہے اور اس میں تین سو سے ذیادہ طلبا و طالبات زیرِتعلیم ہیں۔آسٹریلیا میں مقیم کمیونیٹی کے ممبران بھی ان کی اس کاوش کو سراہتے ہیں۔ آسو کوہلی نے کس طرح معذوری کے طعنوں کو اپنی طاقت بناتے ہوئے پسماندہ علاقے میں اسکول قائیم کیا اور ان کی کاوش اور جدوجہد کوآسٹریلیا سے لے کر سرکاری ایوان تک میں کس طرح سراہا جا رہا ہےا؟


سندھ کے دور دراز علاقے میں بچوں میں تعلیم عام کرنے والی آسو کولہی کون ہیں؟

 پاکستان کے صوبہ سندہ کے پسماندہ اور دور دراز علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ایسے میں آسو کوہلی ایک ایسی مثال بن کر سامنے آئیں جنہوں نے اپنی معذوری کو کبھی کمزوری نہیں بننے دیا۔ انہوں نے ذات پات کے بندھن میں جکڑے نظام کو شکست دی اور یہی نہیں بلکہ ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کے لئے باہر نکلنا تو درکنار کسی سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں وہاں ہندو مت کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی آسو کولہی نے نہ صرف خود تعلیم کے حق کو حاصل کیا بلکہ دوسروں کو بھی اس زیور سے آرستہ کررہی ہیں

آسٹریلیا میں بھی آسو کوہلی کی پُر عزم کہانی نے پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھنے وا لی ہر کمیونوٹی کویکساں طور پر متاثر کیاہے ۔شیخ محمود کھوڑو سندھی کمیونیٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ا نکا کہنا ہے کہ سندھ کے دور دراز علاقوں سے کم ہی اچھی خبریں آتی ہیں مگر آسو کوہلی کے عزم نے آسٹریلیا میں مقیم سندھی کمیونیٹی کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ۔ ایک کسان کی بیٹی اور پھر بچپن میں ہی پولیو جیسی مہلک بیماری کا شکار ہونےکے باوجود بھی آسو کہولی تعلیم کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹیں اورانہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سندھ کے ضلع عمرکوٹ کے  دودراز اور پسماندہ دیہات میں اپنے بھائیوں اور شوہر کی مدد سے ایک اسکول قائم کررکھا ہے جہاں وہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی مفت تعلیم دے رہی ہے۔آسو کولہی اس غریب معاشرے کے بچوں کو تعلیم دے رہی ہے جہاں لوگ کرونا وباء میں زیادہ ماسک خریدنے کی بھی  سکت نہیں رکھتے جبکہ وہاں بجلی اور پانی کی باآسانی فراہمی  جیسی  کئی ضرویات زندگی کو عیش و آرام سمجھا جاتا ہے۔
Asoo Kohli and her class
Source: Mohammad Saqib
آسو کولہی کی زندگی آسان نہ تھی بلکہ ایک غریب اور ہندووں کی سب سے نچلی ذات سے تعلق رکھنی والی آسو کے لئے سماج کی کئی رکاوٹیں آڑے آئیں ، انہوں نے  سخت غربت اور مفلسی میں دن گزارے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس کے باوجود ان کے والد نے انہیں اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے نہ دیا اور ان کا ہر ہر موقع پرساتھ دیا۔
 

آسو کولہی کے مطابق بچپن میں ہی وہ پولیو کا شکار ہوچکی تھیں لیکن چھ سال کی عمر میں ان کے والد نے انہیں اسکول میں داخل کرایا حالانکہ ان کے علاقے میں لڑکے بھی کم ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آسو کولہی کے مطابق اُن کی کامیابیوں میں اُن کے والد کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ والد صاحب کی بچپن سے یہی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ٹیچر بنیں اور غریب بچوں کو پڑھائے۔ آج ان کے والد اگرچہ زندہ نہیں، مگر بابا کے بناء وہ بہت مایوس اور بعض اوقات خود کو اکیلا اور دکھی محسوس کرتی ہیں لیکن آسو کے لئے خوشی کا مقام یہ ہے کہ وہ اپنے والد کی خواہش کے عین مطابق اب استانی بن چکی ہیں۔

 میلبورن میں مقیم سندھی سنگت کے  آفتاب سولنگی اس بات سے متفق ہیں کہ سندہ کے اندرونی علاقوں میں کم ہی بچوں کو تعلیمی مواقع حاصل ہیں مگر آسو کوہلی نے ان فرسوادہ روایات کو توڑا ہے جو معذوری کو بیڑیاں  بناکر پیش کرتی ہیں، مسٹر سولنگی کے خیال میں ہندو مذہب کی پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والی کسی عورت کا اس طرح معاشرتی روایات کے خلاف عِلم حاصل کرنا اور پھر تعلیم کی روشنی دوسری لڑکیوں تک پہنچانا ایک ایسا جراتمندانہ کام ہے جس کی جتنی بھی پزیرائی کی جائے کم ہے۔ 

تعلیم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آسو کولہی نے کہا کہ "جس معاشرے میں  تعلیم نہیں ہوتی وہاں ترقی کا تصور ہی ناپید ہے۔ تعلیم کے بغیرانسان کی مثال ایک حیوان جیسی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ ضرورت لڑکیوں کی تعلیم ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ ترقی تعلیم ہی سے آتی ہے، اور پھر کہتے ہیں نا کہ ایک مرد پڑھا ایک فرد پڑھا، لیکن ایک عورت پڑھی تو پورا معاشرہ پڑھا۔ اگر وہی عورت پڑھی لکھی ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو پڑھائے گی۔ اور اس کو اچھی تعلیم دے گی اور وہ آگے اس کو اچھی ترقی ہوگی"

اپنے اسکول کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے آسوکولہی نے بتایا کہ 2013 میں انہوں نے ایک جھونپڑی میں اسکول شروع کیا تھا۔ لیکن آج اُن کا اسکول میں دس کمروں پر مشتمل ہے۔ اور اپنے علاقے کے غریب بچوں جن میں 200 لڑکے اور 115 لڑکیاں شامل ہیں، جنہیں وہ تعلیم کی روشنی سے روشناس کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  میری کوشش ہے کہ ان بچوں کو پڑھانا ہے، کسی کو اچھا ڈاکٹر بنانا ہے، کسی کو اچھا آفیسر بنانا ہے،  تو کسی کواپنی جیسی بہتر ٹیچر۔۔۔  اسی وجہ سے وہ اب پرائمری اسکول کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد  مڈل اسکول بھی بنوارہیں۔

آسو کولہی شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر جبکہ بیٹی کو اپنی طرح استانی بنانے ہی کی خواہشمند ہیں۔ جس کے لئے وہ سخت محنت کررہی ہیں اور کم وسائل کے باوجود ان کی تعلیم اور تربیت کا مکمل انتطام کررہی ہیں۔

ایس بی ایس اردو کے ساتھ اپنی بچپن کی یادیں بیان کرتے ہوئے آسو کا کہنا تھا کہ جب وہ چھوٹی تھیں پولیو کی وجہ سے رینگ رینگ کر اسکول جاتی تھی۔ جہاں کئی لوگ ان کی مدد کرتے یا ان پر ترس کھاتے تھے تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو یہ کہتے تھے کہ آخر میں پڑھ لکھ کیا کروں گی۔ وہ مجھ پر ہنستے تھے اور ان کا خوب مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ ان لوگوں کے خیال میں انہیں (آسو ) کو گھر پر بیٹھ جانا چائیے۔ کیونکہ اس قدر سخت مشقت اٹھانے سے اسے کوئی خاص نعم البدل نہیں ملنا تھا۔ لیکن آسو کولہی اتنی بھی کمزور نہیں تھی ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ انسان کا اگر کوئی عضو معذور ہے تو کوئی بات نہیں لیکن انسان کا ذہن معذور نہیں ہونا چائیے اور جس کا ذہن معذور نہیں وہ انسان کسی دوسرے سے کم نہیں اور وہ بہت سے اعلیٰ کام کرسکتا ہے۔

ایک اور واقعے کا دکھ بھرے انداز میں ذکر کرت ہوئے آسوکولہی کا کہنا تھا کہ ایک بار جب ہم بس میں کسی کام کے سلسلے میں جارہے تھے تو ان کے بھائی ان کے ساتھ تھے۔ ایسے میں ایک عورت نے آسو سے کہا کہ تم پڑھ لکھ کر کیا کرو گی، گھر پر بیٹھ جاو، ایسے ہی بسوں  میں دھکے کیوں کھاتی ہو۔ اس دوران خاتون نے آسو کی معذوری کا سہارا یعنی اس کی بے ساکھی گاڑی سے نیچے پھینک دی اور اس سے ناگواری کا اظہار بھی کیا۔
بس میں سفر کے دوران ایک مسافر نے انہیں معذوری کا طعنہ دیا اور حقیر آمیز رویہ ختیار کرتے ہوئے ان کی بیساکھیاں بس سے باہر پھینک دیں
اس واقعہ کا انہیں کئی سال گزر جانے کے بعد بھی شدید دُکھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ واقعہ آج بھی یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گا۔ جب وہ گھر واپس گئی تو انہوں نے واقعے کا ذکر اپنے والد سے کیا۔  تو آسو کے والد صاحب نے انہیں حوصلہ دیا، اور کہا کہ ایسے طعنوں اور جملوں سے تنگ ہو کر کبھی ہمت نہ ہارنا۔ انہوں نے آسو کو اپنے ارادے پر ڈٹ جانے کو کہا اور ایک بات پھر تلقین کی کہ اسے ایک دن اچھی ٹیچر بننا ہے اور علاقے کے غریب بچوں کو پڑھانا ہے۔

آسو کولہی کے مطابق ان کی کاوشوں پر سندھ حکومت نے بھی انہیں خوب داد و تحسین دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے انہیں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دے کر بے حد اعزاز سے نوازا جبکہ وہ انہیں بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جس پر وہ صوبے میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی شکر گزار ہے۔

آسو کی خوش قسمتی  یہ بھی رہی ہے کہ اسے والد کی طرح اچھے بھائی اور خیال رکھنے والا خاوند ملا ہے جو اسے ہر دفتر میں لے جانے اور اس کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لئے ہر وقت حاضر رہتا ہے اس کا کہنا ہے کہ اسے اپنے کاندان کی ہمیشہ سے حمایت حاصل رہی ہے جس کی وجہ ہی سے اس کا اپنے مشن میں کے لئے لگ محنت کرتے رہنا ممکن ہوسکا ہے۔

اپنی زندگی کے مشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے آسو کولہی نے کہا کہ

مٹی سے بنا تھا مٹی میں مل جاوں گا

ابھی کچھ نہ کرسکا تو پھر کبھی کچھ نہ کرپاوں گا
Asoo Kohli with Malala Yousefzai
Source: Mohammad Saqib
ان کا عزم ہے کہ وہ اپنے علاقے اور بالخصوص غریب لوگوں کے بچوں کو تعلیم دے کر ایسا کچھ کر کے اس دنیا سے رخصت ہوں کہ انہیں دنیا ہمیشہ یاد رکھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کاوشوں کی وجہ سے لوگ اب تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگیں ہیں۔ پہلے ہمیں لوگوں کے گھر گھر جانا پڑتا تھا، لوگوں کو تعلیم اور شعور دلانے کے لئے  انہیں بچوں کو اسکول میں لانے کے لئے قائل کرنا پڑتا تھا مگر آج  اس دورا دراز اور پسماندہ علاقے میں بھی گھر گھر شعور پھیل چکا ہے کہ اور لوگان سے کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بچوں کو تعلیم کی دولت سے روشناس کرے جس سے ایک دئیے سے دوسرا دیا روشن ہوئے چلا جارہا ہے۔

کئی رفاہی، سماجی اور معاشرتی بہبود کی انجمنوں کا کہنا ہے کی گرچہ انفرادی طور پر اس طرح کے جراتمندانہ کام کئی اور جگہوں پر کئے جا رہے ہیں جنہیں سراہا بھی جا رہا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے افراد کو نہ صرف مد فراہم کرے بلکہ تعلیمی کام کرنے والوں کے درمیان ربط بھی قائم کرے تا کہ اس طرح کے رفاہی کاموں کے دائیرے کو بڑھایا جا سکے۔

 

(بشکریہ: محمد ثاقب (کراچی ۔ پاکستان


شئیر
Follow SBS Urdu

Download our apps
SBS Audio
SBS On Demand

Listen to our podcasts
Independent news and stories connecting you to life in Australia and Urdu-speaking Australians.
Once you taste the flavours from Pakistan, you'll be longing for the cuisine.
Get the latest with our exclusive in-language podcasts on your favourite podcast apps.

Watch on SBS
Urdu News

Urdu News

Watch in onDemand
پولیو ذدہ بچی نے بڑے ہوکر جھونپڑی اسکول کھولا جہاں اب تین سو سے ذائید بچے پڑھتےہیں | SBS Urdu