اے بی سی کی چیئر ایٹا بٹروس نے کہا ہے کہ پبلک بڑاڈکاسٹر کس طرح شکایات سے نمٹتے ہیں اس پر تحقیقاتی کمیٹی بٹھالنے کا مقصد سیاسی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے چلنے والے ان نشریاتی اداروں کو ڈرایا جا سکے۔ سینیٹ کی کمیونیکیشن کمیٹی کے سربراہ اینڈریو بریگ نے گزشتہ ہفتے انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پبلک براڈکاسٹر کے شکایات سے نمٹنے کے طریقے پر عوامی تحفظات کے باعث سینٹ کمیٹی شنوائی کرے گی۔
ایک بیان میں سنیٹر ایڈریو برگ نے کہا کہ اے بی سی کے ایک مضبوط حامی کے طور پر، میں پریشان ہوں کہ شکایات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور اس سے کو بقول ان کے نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر غلطیاں ہوتی ہیں، تو آسٹریلوی قومی نشریاتی ادارے سے توقع کرتے ہیں کہ وہ انہیں جلد از جلد حل کر ے مگر مجھے تشویش ہے کہ ایسا نہیں ہے
حکومت پر اے بی سی کا یہ تنقیدی بیان اعلان بورڈ کے اپنے شکایات کے نظام کے آزادانہ جائزہ لینے کے چند ہفتوں بعد آیا ہے۔ سابق محتسب اعلیٰ جون میک میلین اور ایس بی ایس کے سابق ڈائیریکٹر نیوز اور کرنٹ افئیرز جِم کیرول اے بی سی کے اس شکائیتی طریقہ کار کے جائیزہ کار تھے جو اگلے سال مارچ تک اس بارے میں بورڈ کو دوبارہ رپورٹ کریں گے۔
ایٹا بٹروس نے اے بی سی کو بتایا کہ سینیٹ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی ایسے عمل میں مداخلت کرے جس کا جائیزہ اپنے طریقہ کار کے مطابق پہلے ہی لیا جاتا رہا ہو۔ بلکہ یہ جائیزہ لینا اے بی سی کے بورڈ کی اپنی قانونی ذمہ داری ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ موجودہ حکومت قومی نشریاتی ادارے کو خاموش کرنا چاہتی ہے ۔ ان کے مطابق یہ سیاست دانوں کا کام نہیں کہ وہ طے کریں کہ قومی نشریاتی ادارے کا شکایتی نظام کیسے چلے اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اے بی سی اور ایس بی ایس عوامی بڑاڈکاسٹر ہیں ریاستی براڈکاسٹر نہیں۔۔

Prime Minister Scott Morrison and ABC Chair Designate Ita Buttrose take questions from media during a press conference in Sydney, Thursday, February 28, 2019. Source: AAP
لیبر پارٹی کی کمیونیکیشن کی ترجمان مشیل رولینڈ مِس بٹروز کے بیان سے متفق ہیں۔
ایس بی ایس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایس بی ایس کے پاس شکایات سے نمٹنے کا ایک بہت مضبوط اور موثر نظام ہے جس میں ایک آزاد محتسب بھی شامل ہے، اور اس عمل کے بارے میں کوئی تشویش نہیں پائی گئی ہے۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ "ہم انکوائری سے حیران رہ گئے، لیکن ایس بی ایس جوابدہی کے شفاف طریقے کو اپناتے ہوئے نہ صرف ادارتی آزادی کو برقرار رکھے گا بلکہ اس انکوائیری کو تنقید کا جواب دینے کے موقع کے طور پر استعمال کرے گا۔
ایٹا بٹروز اس وقت تک اے بی سی کے خلاف اس سینیٹ انکوائری کو ختم کرنے یا کم از کم موخر کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں جب تک اے بی سی کی اپنی تحقیقات کے نتائج سامنے نہیں آتے۔
گرینز کی سینیٹر سارہ ہینسن ینگ، جو سینیٹ کی کمیونیکیشن کمیٹی کی نائب سربراہ بھی ہیں، کہتی ہیں کہ جب پارلیمنٹ دوبارہ شروع ہو گی تو وہ اے بی سی اور ایس بی کے بارے میں اس سینٹ انکوائری کو روکنے کی کوشش کریں گی۔
لیکن وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے تحقیقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ سینیٹ کی جانچ سے بالاتر نہیں ہے۔
ڈاکٹر مارگریٹ سائمنز ایک فری لانس جرنلسٹ اور صحافتی امور کی ماہر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اے بی سی اور ایس بی ایس کے فیصلوں پر تنقید کی جانی چاہئے، لیکن حکومت نے اس انکوائری کے انعقاد کی جو وجوہات بیان کی ہیں اس میں وزن نہیں ہے خاص طور پر ایک ایسے وقت جب پارلیمانی وسائل محدود ہیں ایسی بے نتیجہ انکوائیری پر عوامی رقم کا ضیاع بے فائیدہ ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خیال میں انکوائری اب کیوں بلائی گئی ہے:’حال ہی میں کئی ایسے ہائی پروفائل کیسز سامنے آئے ہیں جن میں اے بی سی نے حکومت کو ناراض کیا ہے، اور یقیناً، لونا پارک میں آتشزدگی سے متعلق دستاویزی فلم کے حوالے سے نیو ساؤتھ ویلز لیبر پارٹی کو بھی ناراضگی ہوئی ہے‘۔
ڈاکٹر سائمن کہ مطابق خبر رساں اداروں کا سیاسی یا تجارتی اثر و رسوخ سے پاک ہونا جمہوریت کے کام کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ سینیٹ کی کمیونیکیشن کمیٹی آنے والے مہینوں میں تجاویز لے کر ْسماعت کرے گی، جس کی رپورٹ اگلے سال فروری میں متوقع ہے۔
- نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے
- Spotify Podcast, Apple Podcasts, Google Podcast, Stitcher Podcast
- کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا ایس بی ایس اردو کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے