برات علی بتور نے امن، بہتر اور محفوظ زندگی کے لئے ایک سفر شروع کیا جو کہ خصوصا آسٹریلیا میں اسائلم حاصل کرنے کا ایک دشوار طریقہ ہے۔افغانستان جیسے ملک میں انہیں فوٹو جرنلست بننے کا خیال کیسے آیا اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنے ابتدائی سالوں میں مقیم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سن 2005 کے بعد ہزارہ برادری کے لیے حالات خراب ہوئے تو وہ افغانستان ہجرت کر گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں انہوں نے کچھ حساس موضوعات پر کام کیا جس میں وار لارڈز ملوث تھے جس کے بعد مجھے وہاں دھمکیاں موصول ہوئیں اور اسی لیے میں نے افغانستان سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ برات علی کی کہانی "ڈانسنگ بوائز" واشنگٹن پوسٹ میں چھپی اس کے بعد ان کو دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد انہیں افغانستان سے نکلنا پڑا۔
محفوظ جگہ تلاش کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنا۔ اس کے بجائے ، وہ ایک انسانی سمگلر کو ادائیگی کرنے پر مجبور ہوئے، اور کشتی کے ذریعے پناہ مانگنے والے مہاجروں میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے سمندر میں اپنے دل دہلا دینے والے سفر کو طاقتور تصاویر کے ساتھ دستاویز کیا۔

File photo of Rohingya refugees arriving in Indonesia. Source: Getty
انہوں نے یہ سفر انڈونیشیا تک زمینی راستے سے کیا اور اس کے بعد کشتی کے زریعہ کرسمس آیلینڈ کی طرف روانہ ہوئے اس دوران کشتی میں سوراخ ہونے کی وجہ سے انہیں انڈونیشیا واپس بھی لوٹنا پڑا۔
ایس بی ایس سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کشتی کے وہاں پہنچنے پر ہمیں گرفتار کر کہ ڈیٹینشن سینٹر میں رکھا گیا جہاں سے وہ پہلی رات ہی بھاگ نکلے اور 2013 میں یو این کے ذریعے آسٹریلیا کے لئے دوبارہ سفر شروع کیا۔
اس سوال پر کہ آسٹریلیا پہنچنے پر انہیں کہاں رکھا گیا ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا پہنچنے پر ہمیں ڈیٹینشن سینٹر نہیں رکھا گیا۔ سب سے پہلے ہم ڈارون پہنچے اور اب میں میلبرن میں مقیم ہوں۔
آسٹریلیا کے لیے اپنے پورے کشتی سفر کی تصویر کشی اور فلم بندی کے ناول پر ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہماری کشتی ساحل پر رکی تب تک کیمر ان کا ہمسفر رہا۔ ان کا کیمرا اسوقت خراب ہو گیا جب انہوں نے کشتی سے چھلاگ لگائی اور بعد میں انہی تصاویر کے لئے آسٹریلیا میں سب سے بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا۔2013 کے نیکن واکلی ایوارڈز میں ، بتور نے سال کی بہترین تصویر اور آرٹیکل کی تصویر جیتی۔

Source: AAP
مقابلے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ مقابلہ اسائلم سیکرز اور رفیوجیز کے لیے ہے اور اس میں وہ بھی حصہ لے چکی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس سفر کے بارے میں جانیںکہ کتنا دشوار ہے ایسا سفر کرنا۔
انہیں امید ہے کہ ان کی کہانی اور دیگر ہزاروں سالوں کی کہانی روشنی ڈال سکتی ہے تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ یہ لوگ اپنے وطن میں کس طرح مصیبت میں مبتلا ہیں ، اور وہ کس طرح تکلیف میں ہیں اور وہ پناہ کے لیے اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟
(یہ کہانی اس سے قبل ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ کو شائع کی گئی تھی)
- پوڈ کاسٹ سننے کے لئے اوپر دئے آڈیو آئیکون پر کلک کیجئے
- یا پھرنیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے
- Spotify Podcast, Apple Podcasts, Google Podcast, Stitcher Podcast
- کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا ایس بی ایس اردو کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے



