آسٹریلیا سے مجھے اخلاقی معاونت ملتی ہے اور یہ ہی درحقیقت ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
وہ بچے جو کسی بھی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے یا جسم فروشی پر مجبور ہو جاتے ہیں ہم ان کو تعلیم فراہم کرنے کے لئے کام کرتے ہیں ۔
انسانی حقوق کے مسائل سب جگہ ہیں لیکن آسٹریلیا اور پاکستان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان میں سہولیات کا فقدان ہے ۔
ایسے بہت سے لوگ تعلیم کے حصول کے لئے پاکستان سے آسٹریلیا کا رخ کرتے ہیں جن کا بنیادی مقصد پاکستان جا کر اپنی خدمات پیش کرنا ہوتا ہے ۔ ایسی ہی ایک خاتون شازیہ آصف خان ہیں جو ایک سرٹیفیکٹ کورس کے لئے آسٹریلیا آئیں لیکن بنیادی طور پر پاکستان میں ایک ادارہ چلا رہی ہیں جو غریب بچوں کی بہبود اور تعلیم کے لئے متحرک ہے ۔
شازیہ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ایسے بچوں کی بحالی اور تعلیم کے لئے کام کرتا ہے جن کے والدین اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے ۔ شازیہ کے مطابق ان کی توجہ کا مرکز گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے بچے ، ایسے بچے جو حالات کی خرابی کے باعث جسم فروشی پر مجبور ہیں یا فٹ پاتھ پر بھیک مانگ رہے ہیں، انہیں تعلیم دینا ہے ۔ شازیہ نے یہ بھی بتایا کہ ان کے اسکول کے اوقات کار نرم رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ والدین جو مشاورت کے باوجود بچوں کو کام کرنے سے نہیں روکتے ان کے بچے کام کے بعد تعلیم حاصل کر سکیں ۔
شازیہ فی الوقت زیادہ تر کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں کام کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کراچی کے قریب سندھ کے گاؤں اور گوٹھ ان کے کام کا مر کز ہیں ۔ شازیہ نے اپنے ادارے کے مستقبل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جلد ہی وہ اپنے ادارے کے تحت سندھ سے نکل کر اب ملک کے دوسرے صوبوں میں کام کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ ریجسٹریشن کے ذریعے اپنا دائرہ عمل بڑھا رہی ہیں ۔ شازیہ کا کہناہے کہ پہلے مرحلے پر صوبہ بلوچستان میں کام شروع کیا جائے گا اس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی سماجی خدمت کریں گی ۔

Source: supplied by shazia asif

Source: supplied by shazia
دوسری جانب شازیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی وہ بچوں کی تعلیم پر کام کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ خوتین کے مسائل جیسا کہ گھریلوتشدد ، طلاقیں ، زیادتی کا شکار خواتین اور تیزاب کے حملے میں متاثر ہونے والی خواتین کے لئے بھی بحالی اور بہبود کاکام کرنے کی خواہاں ہیں ۔
شازیہ کہتی ہیں کہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں اچھے اسپتالوں کی کمی ہے اس لئے وہ ایک ایسا اسپتال قائم کرنا چاہتی ہیں جہاں ٹیکنالوجی کے ساتھ بہترین طبی آلات موجود ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ صفائی کا بہت خیال رکھا جائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ اچھے اسپتال موجود ہیں لیکن دسترس سے دور ہیں یا پھر ان پر مریضوں کا بہت دباؤ ہے ۔جبکہ وہ ایک مفت اسپتال کے قیام کی متمنی ہیں ، شازیہ نے امید ظاہر کی کہ رواں سال کے آخر تک وہ اپنے تمام منصوبوں کا باقاعدہ آغاز کر دیں گی ۔
شازیہ کہتی ہیں کہ ان کا ارادہ سال 2019 کے آخر میں آسٹریلیا سے انسانی حقوق میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنا تھا لیکن کرونا وائرس کے بعد بدلتی ہوئی عالمی صورتحال اورسفری پابندیوں کے باعث وہ ایسا نہ کر سکیں تاہم اب وہ مستقبل میں دوبارہ آسٹریلیا آنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ شازیہ آصف نے ایس بی ایس اردو کے سوال پر بتایا کہ آسٹریلیا میں ان کے کافی دوست موجود ہیں جو پاکستان میں اتنے اہم سماجی مقصد کے لئے ان کی ہمت بڑھاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ در اصل یہ ہی حوصلہ ان کو آگے بڑھنے کی جہت فراہم کرتا ہے ۔

Source: supplied by shazia