2023 میں بین الاقوامی طالبہ ایمی (جو اپنا اصلی نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں ) نے سوچا کہ ڈارون میں انہیں ایک محفوظ نوکری مل گئی ہے۔اُس وقت وہ 30 سال کی تھیں، اور انٹرنیشنل ہاؤس سڈنی نامی ووکیشنل تعلیمی ادارے میں اسٹوڈنٹ سروس آفیسر کے طور پر ملازمت کر رہی تھیں، جہاں وہ "ایڈوانسڈ ڈپلومہ اِن پروگرام مینجمنٹ" کی طالبہ بھی تھیں۔ اکثر بین الاقوامی طلباء اور نئے مہاجرین کیش اِن ہینڈ عارضی نوکریاں کرتے ہیں اس کے مقابلے میں ایمی کو اس ملازمت میں تحفظ محسوس ہوا۔مگر جنوری 2025 میں یہ ووکیشنل تعلیمی ادار دیوالیہ ہو گیا۔
ایمی کے آسٹریلوی ساتھی حکومت کی Fair Entitlements Guarantee اسکیم (F-E-G) کے تحت تنخواہوں اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے اہل تھے۔یہ اسکیم کمپنی بند ہونے کے بعد ملازمین کو بقایاجات، ریڈنڈنسی اور دیگر واجبات کی وصولی کا حق دیتی ہے۔لیکن چونکہ ایمی بین الاقوامی طالبہ تھیں، وہ اس اسکیم کے لیے اہل نہیں تھیں — جس کا مطلب ہے کہ کمپنی بند ہونے کے بعد آج تک انہیں کچھ تنخواہیں اور واجبات ادا نہیں کیے گئے۔
سیری فیلڈمین-گبے [[Gubbay]]، ریڈفرن لیگل سینٹر میں سینئر سالیسیٹر ہیں۔وہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ مقامی اور بین الاقوامی کارکنوں کے لیے سیکیورٹی نیٹ میں فرق ہے۔
2019 میں اس وقت کی کولیشن حکومت نے Migrant Workers’ Taskforce کی فائنل رپورٹ جاری کی، جس میں سفارش کی گئی تھی کہ F-E-G اسکیم کو تمام مہاجر کارکنوں تک توسیع دی جائے۔
یہ ٹاسک فورس 2016 میں مہاجر کارکنوں کے استحصال سے نمٹنے کے لیے قائم کی گئی تھی، مگر 2019 کے بعد سے F-E-G میں توسیع نہیں ہوئی۔2025 میں البانیز حکومت نے F-E-G میں اصلاحات کے لیے مشاورت کا عمل شروع کیا، جب کچھ کاروبار اس اسکیم کے غلط استعمال میں ملوث پائے گئے۔مسٹر کنکل کہتے ہیں کہ حکومت کو فوری طور پر بین الاقوامی طلباء اور مہاجر کارکنوں کو F-E-G تک رسائی دینی چاہیے۔اس کی عدم دستیابی کی صورت میں، ایمی جیسے ملازمین عدالت میں دعویٰ دائر کر سکتے ہیں۔ایمی چاہتی ہیں کہ اس نظام میں تبدیلی ہو۔
______________
جانئے کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک
ڈیوائیسزپرانسٹال کیجئے۔ پوڈکاسٹ سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ
پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم کا انتخاب کیجئے