آسٹریلیئن بارڈر فورس کے ترجمان نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ ویسٹرن آسٹریلیا کے شمال مغرب میں چونکہ یہ آپریشن جاری ہے، اسی لئے فوری طور پر مزید معلومات فراہم نہیں کی جاسکتی۔
ایک بیان میں اے بی ایف نے ک ہا کہ آسٹریلیا کی سخت سرحدی حفاظتی پالیسیوں کا مطلب یہ ہے کہ کشتی کے ذریعے غیر مجاز سفر کرنے والے کو کبھی بھی آسٹریلیا میں مستقل طور پر آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ "آسٹریلیا اپنی سرحدوں کی حفاظت، اسمگلنگ کرنے والے لوگوں کو روکنے اور غیر محفوظ سفروں پر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ لوگوں کی سمگلنگ کا بزنس ماڈل معلومات کے استحصال اور کمزور لوگوں کو جھوٹ بیچنے پر بنایا گیا ہے جو سمندر میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے سب کچھ ترک کر دیتے ہیں۔"
اس مدعے پر اپوزیشن نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بارڈر سکیورٹی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
ملکی وزیر اعظم انتھوبی البنیزی نے تصدیق کی ہے کہ کشتیوں کے کم از کم تین گروپس کی آمد کے بعد انہوں نے بارڈر سکیورٹی کے مدعے پر بارڈر سکیورٹی کے سربراہ ریئر ایڈمرل بریٹ سونٹر سے بات کی ہے۔
اپوزیشن لیڈر پٹر ڈٹن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت دراصل آپریشن سوورین بارڈرز کی حمایت نہیں کر رہی۔
اس کے جواب میں وزیر اعظم البنیزی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کے رہنما اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ ""پیٹر ڈٹن ایک ایسا شخص ہے جو اپنی حد سے زیادہ بیان بازی اور اس مسئلے پر اپنی حد سے تجاوز کے ساتھ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ آسٹریلیا کے قومی مفاد میں ہونے والے نتائج میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے، ہمیشہ کی طرح وہ صرف سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے۔"
اس سے قبل پیٹر ڈٹن نے اپنی جماعت لبرلز کی ایک سیاسی ریلی سے خطاب میں وزیر اعظم البنیزی کے مائیگریشن سے متعلق ریکارڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔"حقیقت یہ ہے کہ انتھونی البنیزی نے کبھی بھی آپریشن سوورین بارڈرز پر یقین نہیں کیا، اس نے ہمیشہ اس کے خلاف سخت جدوجہد کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مجموعی طور پر گزشتہ بجٹ میں بارڈر فورس اور آپریشن سوورین بارڈرز سے 600 ملین ڈالر واپس لیے گئے ہیں۔ آسٹریلوی بارڈر فورس کے کمشنر نے نشاندہی کی، وہ پھیلے ہوئے ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ کیا اسی سطح کی نگرانی کی جا رہی ہے جیسا کہ جب ہم حکومت میں تھے، لیکن یہ ناقابل فہم ہے کہ یہ کشتیاں بغیر پتہ چلائے گزر جائیں گی۔"
واضح رہے کہ سرحدی نگرانی کے سربراہ ریئر ایڈمرل بریٹ سونٹر کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے پر مختلف قسم کی آراء سے وہ لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو انسانی کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
اس سب کے باوجود کئی لوگ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے پر کم توجہ اور فنڈنگ کی کمی سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہورہی ہے۔
کمیونیکیشن کے وزیر مائیکل رولینڈ نے البتہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسکائی نیوز کو بتایا کہ آپریشن سوورین بارڈرز ویسے ہی چل رہا ہے جیسا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں۔
اپوزیشن رہنما پیٹر ڈٹن البتہ متفق نہیں۔ "ہم جانتے ہیں کہ عارضی تحفظ کے ویزے ختم کر دیے گئے ہیں، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے کہ آپریشن سوورین بارڈرز سے پیسہ واپس نکالا ہے، اس لیے وزیر اعظم آسٹریلوی عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں ایمانداری سے نہیں بتا سکتے کہ کہ آپریشن سوورین بارڈرز چل رہا ہے جیسا کہ یہ مخلوط حکومت کے تحت چل رہا تھا، اور یہ اس حکومت کی ناکام پالیسیوں کی ایک اور مثال ہے۔"
اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق ان غیر قانونی تارکین وطن کو ناورو جزیرے پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ویسٹرن آسٹریلیا کے پریمیئر راجر کوک نے کہا ہے کہ وہ ان کشتیوں کی آمد کے بعد سے بہت زیادہ پریشان نہیں اور سرحدوں کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ "یہ بنیادی طور پر وفاقی حکومت کے لیے حل کرنے کا معاملہ ہے، لیکن یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارا شمال مغربی ساحل کتنا ایکسپوز ہے، اور اسی لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اس ساحل کی حفاظت کے لیے وسائل موجود ہیں، نہ صرف۔ غیر قانونی آمد کے معاملے میں، اگر آپ انہیں یا پناہ کے متلاشی کہنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بھی یقینی بنائیں کہ ہم اپنی ماہی گیری، اپنی دفاعی سہولیات اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کر سکیں۔"
آسٹریلیئن حکومت نے آنےکشتیوں کے ذریعے آنے والوں کو آف شور سے بھیجے جانے کی اطلاعات کی تصدیق نہیں کی ہے.
وزیر داخلہ کلیئر اونیل کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن خودمختار سرحدوں کے لیے حکومت کا عزم "مطلق" ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہر وہ شخص جس نے غیر قانونی طور پر کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کی ہے جب سے وہ وزیر رہی ہیں وہ شخص یا تو اپنے آبائی ملک یا پھر ناورو جزیرے کی جانب واپس بھیجا گیا ہے۔
خود وزیر اعظم البنیزی نے سرحدوں کی حفاظت کے اقدامات مزید سخت کرنے کا عزم دہرایا ہے۔
" بھی آپریشن سوورین بارڈرز پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ ہم اس پر مزید بات کریں گے، لیکن میں بھی آپریشن سوورین بارڈرز کمانڈر کے تبصروں کو نوٹ کرتا ہوں جنہوں نے سیاستدانوں کو قومی سلامتی پر سیاست نہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں بہت سخت تبصرے کیے ہیں۔"