آسٹریلیئن بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق بچت کی شرح 17 سالہ ریکارڈ کم سطح پر ہے اور لوگ اپنی قابل خرچ آمدن کا محض 1 فیصد ہی بچت کر پارہے ہیں۔
اینجیلیکا آسٹریلیا نامی ادارے کی ڈپٹی ڈائریکٹر مای عزیزی کے مطابق یہ صورتحال قابل تشویش ہے۔
ان کے بقول ان دنوں ایسے افراد بھی مدد کے لیے رجوع کر رہے ہیں جو مستحکم ملازمتوں کے حامل ہیں۔
آسٹریلیئن بیورو آف اسٹیٹکس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بچت کرنے کی شرح سال 1950 کے بعد سے کم ترین سطح پر ہے۔
یونیورسٹی آف نیوکاسل میں اقتصادیات کے پروفیسر بل مچل کے بقول لوگوں میں بچت کرنے کی شرح مسلسل تبدیل ہوتی رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچت کی شرح میں کمی کی اصل وجوہات میں سے ایک حکومت کی مالیاتی پالیسی ہے۔
پروفیسر مچل کو خدشہ ہے کہ یہ پالیسیاں معیشت کو نقصان بھی پہنچاسکتی ہیں۔
اور اعداد وشمار اس بات کو درست ثابت کرتے ہیں۔ جب سے انٹیرسٹ ریٹس میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے لوگوں کی بچت کی سطح میں کمی ہونا شروع ہوئی ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں لوگ اپنی قابل خرچ آمدن کا قریب 11 فیصد بچت کر پارہے تھے جو اب محض ایک فیصد کے آس پاس ہے۔
پرسنل فائنانس کی ماہر اور مصنفہ ایفی زاہوس اس بارے میں کہتی ہیں کہ گرچہ لوگوں کے پاس پھر بھی کچھ پیسہ موجود رہتا ہے لیکن اس کی بچت کے معاملے میں آسٹریلیئن افراد بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں۔
وہ مانتی ہیں کہ ان حالات میں بچت کرنا مشکل ہے لیکن حالات کے مدنظر خاندانوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔
پروفسر مچل البتہ کہتے ہیں کہ جب تک لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوگا، بچت ممکن نہیں اور لوگوں کو مالیاتی پریشانی لاحق رہے گی۔