پاکستان سے آسٹریلیا آنے والے محمد پر پچھلے دس سالوں میں حراستی مراکز میں کیا گزری؟

New Zealand Refugees

FILE - In this Sept. 4, 2018, file photo shows Nibok refugee settlement on Nauru. About 120 refugee children and teenagers are living on Nauru. New Zealand plans to increase the number of refugees it takes each year from 1,000 to 1,500. Liberal Prime Minister Jacinda Ardern announced on Wednesday, Sept. 19, that the new quota will take effect from 2020. (Jason Oxenham/Pool Photo via AP, File) Credit: AP

اقوامِ متحدہ اس ہفتے آسٹریلیا کے امیگریشن کے حراستی نظام کا جائزہ لے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا عبوری حراستی نظام پر ورکنگ گروپ یہ جانچ کر رہا ہے کہ آسٹریلیا جیلوں سے لے کر آف شور حراستی مراکز تک میں مقیم افراد کو کس طرح ان کی آزادی سے محروم کرتا ہے— مگر بغیر کسی شنوائی کے حراستی مراکز میں چھ سال گزارنے والے محمد جیسے کئی پناں گزیںنوں کے لئے یہ جائزہ بہت تاخیر سے آیا ہے۔


آسٹریلیا میں اپنے پہلے چھ سالوں کے دوران محمد نے ایک دن بھی آزادی میں نہیں گزارا۔ ایک دہائی سے بھی پہلے وہ اپنی آمد پر حراست میں لے لیے گئے جب ان کی کشتی پاکستان سے آسٹریلیا کے ساحلوں تک پہنچی۔
محمد کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے، اور ان کی آواز بھی تبدیل کی گئی ہے تاکہ ان کی شناخت محفوظ رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے پریشان کنُ سال امیگریشن کی حراست میں گزارے۔
وہ کہتے ہیں کہ کرسمس آئی لینڈ پر انہیں تعلیم کا موقع نہیں دیا گیا—اور انہیں سات ماہ پرانی میعاد ختم شدہ یا ایکس پائیرڈ خوراک کھانے پر مجبور کیا گیا۔
اس ہفتے، آسٹریلیا کا امیگریشن ڈیٹینشن نظام اقوامِ متحدہ (UN) کی جانچ کے دائرے میں ہے۔
یو این کا آربٹریری ڈیٹینشن ورکنگ گروپ 12 روزہ مشن کے تحت آسٹریلیا کی حراستی پالیسیوں کا جائزہ لے رہا ہے—اس جائزے میں جیلوں اور پولیس اسٹیشنوں کے علاوہ کم عمر افرا د، تارکینِ وطن اور ذہنی سماجی معذوری کے شکار افراد کے مراکز اور اداروں میں موجود افراد کا جائزہ شامل ہے۔
اس جائیزے کے موقع پر قانونی، تعلیمی اور وکالتی تنظیموں کے ایک قومی اتحاد کی جانب سے امیگریشن ڈیٹینشن کے مکمل خاتمے کا مطالبہ دوبارہ اجاگر کیا ہے۔
2023 میں، عدالت نے قرار دیا کہ جب کسی شخص کو مستقبلِ قریب میں ملک بدر کرنے کا کوئی حقیقی امکان نہ ہو تو غیر معینہ مدت تک امیگریشن حراست غیر قانونی ہے۔

ہیومن رائٹس فار آل نامی فلاحی قانونی ادارے کی ڈائریکٹر اور پرنسپل، ایلیسن بیٹیسن، نے گزشتہ سال جنیوا میں ورکنگ گروپ سے خطاب کیا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ آج بھی حراست میں ہیں جنہیں پہلے ہی رہا ہو جانا چاہیے تھا۔
آسٹریلیا کے آف شور انتظامات کے تحت، 2025 کے وسط تک تقریباً 100 افراد نارو اور 37 پاپوا نیو گنی میں موجود تھے۔
حالیہ آف شور ڈیپورٹیشن انتظامات نے کئی پناہ گزینوں کو مستقل طور پر نارو بھیج دیا ہے۔
قومی اتحاد لازمی حراست ختم کرنے اور ایسے قانونی طریقہ کار متعارف کروانے کی سفارش کرتا ہے جن سے حراست قانونی، باقاعدہ اور مؤثر آزادانہ نظرثانی کے تابع ہو۔ میڈلین گلیسن کہتی ہیں کہ اصلاحات کے ڈھانچے پہلے سے موجود ہیں—انہیں صرف قانونی اختیار کی ضرورت ہے۔
محمد اب آسٹریلوی شہریت کے حصول کی تیاری کر رہے ہیں۔
مگر اپنی رہائی کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ آسٹریلیا کا انسانی حقوق کا ریکارڈ ہمیشہ اس تجربے سے داغدار رہے گا جو انہوں نے اور بے شمار دوسروں نے جھیلا۔

___
جانئے کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک کریں ہر بدھ اور جمعہ کا پورا پروگرام اس لنک پرسنئے, اردو پرگرام سننے کے دیگر طریقے, SBS Audio”کےنام سےموجود ہماری موبائیل ایپ ایپیل (آئی فون) یااینڈرائیڈ , ڈیوائیسزپرانسٹال کیجئے۔

شئیر
Follow SBS Urdu

Download our apps
SBS Audio
SBS On Demand

Listen to our podcasts
Independent news and stories connecting you to life in Australia and Urdu-speaking Australians.
Once you taste the flavours from Pakistan, you'll be longing for the cuisine.
Get the latest with our exclusive in-language podcasts on your favourite podcast apps.

Watch on SBS
Urdu News

Urdu News

Watch in onDemand