مشیل سے پوچھا گیا کہ بطور وزیر مواصلات انکا ٹاپ ایجنڈا کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا،
آسٹریلیا میں پچھلے دس سالوں میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ریگولیٹری نظام اور ہماری قانون سازی تمام آسٹریلوی باشندوں کی ترجمان ہو جسکے لیے ہمیں ایسا فریم ورک ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو افراد کے جدوجہد کے سفر اور علاقے سے بلاامتیاز ہوکر سب کی مناسب نمائندگی کرے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے، لیکن خوشی کی بات ہے کہ ہماری کمیونٹی میں بہت سے لوگ ہیں جو واقعی لوگوں کے نمائندے بننے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسےافراد کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا مقصد یہ معاشرے کے ہر فرد کو برابر کے مواقعے فراہم کرنے کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے گا ۔
انہوں نے علاقائی اور مقامی اخبارات کی مدد کے لیے ایک فنڈ بنانے کے اپنے وعدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا،
Advertisement
وبائی بیماری اور اس سے وابستہ چیلنجوں نے مقامی خبروں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اورہم جانتے ہیں کہ یہ اسکے لیے بہت رقم درکار ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنے انتخابی پلیٹ فارم کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم علاقائی اور مقامی اخبارات کے پبلشرز کی بہتری کیلیے فنڈ فراہم کرینگے۔ اسکے علاوہ ہم کاغذ تک آسان رسائی کے لیے بھی تیزی سے سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔ ہم نے کمیونٹی براڈکاسٹنگ کے لیے پیسہ بڑھایا ہے اور ایک نیوز میڈیا امدادی پروگرام بھی تیار کر رہے ہیں تاکہ فیکٹ چیکنگ کو یقینی بنایا جاسکے جسکا مقصد ایسی نیوز میڈیا پالیسی بنانا ہے جو مفاد عامہ کی صحافت اور میڈیا میں ڈائیورسٹی کو سپورٹ کر سکے۔
انہوں نے ہر قسم کے میڈیا پر آسٹریلیا میں مقیم متنوع کمیونٹیز کی بہتر نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ڈائیورسٹی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ڈائیورسٹی صرف نسل کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں صنف اور آبادیاتی تنوع بھی شامل ہے۔ ایسا کہتے ہوئے انہوں نے ایس بی ایس کے کردار کی بھی تعریف کی،
پچھلے دس سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے، لیکن ابھی بھی بہت زیادہ بہتری کی گنجائش ہے۔ ایس بی ایس بذات خود تنوع اور شمولیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ہماری حکومت کیلیے ایک بہت بڑی مثال بن گیا ہے۔ ہم نے متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے وظائف رکھے ہیں، اور ہمیں ایسے پروگراموں کی ضرورت ہے جو آسٹریلیا کے جدید چہرے کو پیش کریں اور یہ خبروں، کھیلوں، ڈراموں، بچوں کے پروگراموں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
ایس بی ایس کے پروگراموں کے حوالے سے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا،
جب بھی میں ایس بی ایس یا اے بی سی ٹی وی پر لگاتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ خود کو ٹی وی پر دیکھ رہی ہوں۔ میں خود ایک متنوع کمیونٹی کی نمائندہ ہوں اور جب میں ان پروگراموں میں اپنے جیسے لوگوں کی نمائندگی دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے خود کو دیکھ رہی ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نمائندگی کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ لوگوں کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ عوامی نشریاتی ادارے انکی نمائندگی کرتے ہیں جس میں ایس بی ایس اور اے بی سی ہمارے لیے بہت اچھی مثال ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ دونوں براڈکاسٹرز اپنا کام یونہی جاری رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عوامی نشریاتی اداروں کو سیاسی فٹ بال کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ انکی حکومت اگلے پانچ سالوں میں دونوں اداروں کو مزید فنڈز فراہم کرے گی،
ہم ایس بی ایس اور اے بی سی کو اگلے پانچ سالوں میں مزید فنڈز مہیا کرینگے۔ اسکے علاوہ پچھلی حکومت کی جانب سے کی جانے والی 87 ملین ڈالر کی کٹوتی کو بھی بحال کرینگے۔ ہم ان دونوں اہم عوامی نشریاتی اداروں کی جمہوری اداروں کی حیثیت سے عزت کرتے ہیں۔ اور میری تمام اراکین پارلیمنٹ سے اپیل ہے کہ وہ اپنے پس منظر سے قطع نظر ہوکر ہمارے پبلک براڈکاسٹروں کی بطور قابل اعتماد اداروں کے حمایت کریں اور ان کے ساتھ سیاسی فٹ بال جیسا سلوک نہ کریں۔