ایک ہاتھ میں گیمبل اور اُس سے جڑا موبائل کیمرا تو دوسرے ہاتھ سے مینوئل وہیل چیئر کو آگے کھسکانا، تلاش ہے کہ کچھ ایسے مناظر کی جسے وہ اپنے موبائل کیمرے میں عکس بند کر کے دنیا کے سامنے لا سکے، اس تگ و دو میں مصروف یہ لڑکی دنیا کو کچھ دکھانے کی ٹھان لے تو اپنی معذوری کو بھی کمزوری نہیں بننے دیتی ، ارادے کی تکمیل کیلیے ہر رکاؤٹ کو عبور کر جاتی ہے، یہ 19 سالہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ اسپیشل پرسن مومنہ سبطین ہے۔
ایس بی ایس اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مومنہ سبطین نے کہا کہ بیماری ایسی تھی کہ تعلیمی اداروں نے بھی داخلہ دینے سے انکار کیا ، شہر تبدیل کیا لیکن نظام تو وہی تھا ، بیماری اور رویوں کی وجہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکی ، معاشرے کی بے حسی نے مزید دل برداشتہ کیا۔
جب ہم نے مومنہ سبطین سے پوچھا کہ انھیں کونٹینٹ کریئٹر بننے کا خیال ہی کیوں آیا تو مومنہ سبطین نے بتایا کہ معذور افراد میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے لیکن اس دنیا کے سامنے نہیں لایا جا رہا، اس فیلڈ میں آںے کے بعد کوشش ہے کہ وہ چھپا ہوا ٹیلنٹ سب کے سامنے لا سکوں۔
مومنہ کہتی ہیں اگر میں چلنے پھرنے سے معذور ہوں تو خدا نے مجھے بھر پور ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ تنگ نظر لوگوں کی تنقید کا جواب وہیل چیئر پر بیٹھ کر اپنے ٹیلنٹ سے دیتی ہوں، کونٹینٹ کریئٹر مومنہ سبطین کی کامیابی کے پیچھے جہاں ان کا پختہ ارادہ ہیں وہیں ان کے اہلخانہ نے بھی مومنہ کیلیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
مومنہ سبطین نے حکومت پاکستان سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ معذور افراد کیلیے کوٹہ تو مختص کر دیا جاتا ہے لیکن معذور افراد کیلیے نوکریوں کا حصول کسی سہانے خواب سے کم نہیں، اسپیشل پرسن مومنہ سبطین نے نجی و سرکاری اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر مقامات پر معذوروں کی آمد و رفت کیلیے ریمپ کی سہولت موجود نہیں ہوتی ، جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی ان ہی سہولیات کافقدان ہے۔
(رپورٹ: احسان خان)